اِعْتَبَدَ مُحَرَّرَۃً۔ (أبو داود)
تین شخص کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا: ایک وہ امام جس کو لوگ ناپسند کرتے ہیں۔ دوسرا جو اخیر میں نماز کے لیے آتا ہے کہ اس کی نماز چھوٹ جاتی ہے۔ اور تیسرا وہ شخص جو آزاد کو غلام بناتا ہے۔
ان ساری حدیثوں پر بامعانِ نظر غور کیجیے اور امام کی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ آج کل ہمارے اس زمانے میں جو سلوک اس شعبہ کے ساتھ ہوتا رہتا ہے اس کو بھی سامنے رکھیے۔
موجودہ دور اور شعبۂ امامت:
ضرورت ہے اس دور میں بھی اس سنت کو زندہ کیا جائے اور ہر مسجد کا امام اس حیثیت کا مقرر کیا جائے، جو اس اصول پر پورا اترے، ساتھ ہی وہ تبلیغِ دین اور اشاعتِ علوم کے فرائض انجام دے سکے، اس میں ہر حیثیت سے اتنی صلاحیت ہو کہ قوم اس کو اپنا پیشوا بنا سکے، اور وہ حدیث کے معیار پر بھی پورا اُترے۔
ایک عرصہ پہلے اس کا احساس حضرت مولانا سید احمد بریلوی ؒ کو ہوا تھا اور آپ نے اس سنت کے طریقے کو زندہ فرمانے کی سعی فرمائی تھی، چناں چہ آپ کا یہ دستور تھا کہ اپنے زمانے میں امام معیاری مقرر فرماتے تھے، اور ان کو اس حلقہ کا ذمہ دار بنا دیا جاتا تھا جس حلقہ کی وہ امامت کرتا تھا، اور کئی مسجدوں کو ملا کر ایک مناسب مسجد کو جامع مسجد کی حیثیت دے کر اس کے امام کو سشن جج قرار دے دیا جاتا تھا۔ ’’تذکرۂ صادقہ‘‘ میں مذکور ہے:
لوگوں کے اصلاحِ حال اور فیصلۂ طاغوتی سے بچنے کے لیے ضرورت تھی کہ جہاں لوگوں کو فساد وفتن سے روکا جائے، وہاں ان میں عدل وتصفح کی روح بھی پھونکی جائے، اور ان کے ناگزیر تنازع اور پیچیدہ مسائل کے محاکمہ اور فیصل کے لیے کوئی صورت قائم کردی جائے، اور ساتھ ہی ساتھ {شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ} کی سنت بھی ادا ہو سکے۔
چناں چہ جب ہر ایک بستی میں جہاں مسجد موجود تھی، وہاں امام مقرر کرتے، اور جہاں مسجد نہ ہوتی
وہاں بھی تعمیر کرادیتے، اور فصلِ خصومات کا بار اسی کے شانہ پر رکھتے۔ چار پانچ کوس کے حلقے میں کسی مسجد کو جامع مسجد قرار دے کر ایک تعلیم یافتہ، متدین امام کے سپرد کردیتے اور امام بمنزلہ سشن جج متصور ہوتا، اگر اس پر لوگوں کی تسکینِ خاطر نہ ہوتی تو متخاصمین کی اپیل پر بذاتِ خود ان مقامات پر پہنچ کر فصلِ تنازعہ فرماتے، اور ملفوظاتِ کیمیا اثر سے تالیفِ قلوب فرماتے۔1
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شہید ؒ نے مسجدوں کے قدرتی نظام کو خوب سمجھا تھا اور اس نظام کی روح کو جو عرصہ سے مردہ