دعوتِ اجتماع
اب تک جو لکھا گیا وہ نظامِ اجتماع اور نظمِ جماعت یا ان کی افادیت پر۔ یہاںیہ بتانا ہے کہ اس قدرتی اجتماع کے لیے دعوت کیسے دی جاتی ہے اور شریعتِ مطہرہ نے اس کے لیے بھی کس قدر دل نشین طریقہ مقرر کیا ہے، یہ نظامِ دعوت بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے اور یہ بے شمار فائدے کے پیشِ نظر تفصیلی بحث کا متقاضی ہے۔
ضرورتِ اذان:
نظامِ اجتماع میں یہ بات ہم ثابت کرچکے ہیں کہ جماعت کی نماز ہی کامل نماز کہی جاتی ہے اور قرآنِ پاک نے اسی نماز کا ہم سے مطالبہ کیا ہے۔ بلاشبہ نماز کے وقت مقرر ومتعین ہیں، مگر وقت اتنا محدود نہیں کہ صرف اس میں وہی نماز ادا کی گئی اور وقت ختم ہوگیا، بلکہ ہر ایک نماز کا وقت کچھ نہ کچھ وسیع ہے، اس لیے اس کی ضرورت پڑی کہ کوئی ایسا ہو جو اس متعین وقت کے اس حصے کی خبر دے جس میں جماعت ہوگی، اور اس طرح دے کہ محلہ بھر میں خبر پہنچ جائے۔
اذ۱ن کی ابتدا:
چناں چہ اس مسئلے پر پہلے پہل عہدِ رسالت میں مشورہ ہوا، جس مجلسِ مشاورت میں صحابۂ کرام کے علاوہ خود آں حضرت ﷺ بھی شریک تھے، ہر ایک نے اپنی اپنی رائے پیش کی، کسی نے کہا کہ آگ روشن کردی جائے، کسی نے نرسنگھا پھونکنے کی تجویز پیش کی اور کسی نے ناقوس کا مشورہ دیا، آپ نے ان مشوروں میں سے کسی کو منظور نہیں فرمایا، کیوں کہ ان میں سے ہر ایک غیر کے طریقے کی پیروی تھی۔ مجوس آگ جلاتے ہیں، یہود نرسنگھا پھونکتے ہیں اور عیسائی ناقوس بجاتے ہیں، گویا اس مجلس میں کوئی بات طے نہ پاسکی۔1 لوگ منتشر ہوگئے۔