عبداللہ بن الزبیر ؓ کا نماز میں یہ حال ہوتا کہ بے حس وحرکت سے معلوم ہوتے، دیکھنے والا کہتا: یہ بے جان درخت کی لکڑی ہے جس کو ہوا ہلا رہی ہے۔ ایسی محویت ان کو نماز میں ہوتی تھی۔1
ابنِ سیرین ؒ نماز میں جب کھڑے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خشیت سے ان کے چہرہ کا خون خشک پڑجاتا تھا۔2
حضرت مسلم ؒ کے متعلق روایت ہے کہ آپ جب نماز میں داخل ہوتے تو محویت وخشیتِ الٰہی کا یہ عالم ہوتا کہ کوئی بھی آہٹ آپ کو سننے میں نہیں آتی۔3
حضرت عامر بن قیس ؓ کے متعلق بیان ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ نماز پڑھتے ہوئے میری گردن پر خنجر چل جائے تو یہ برداشت، مگر یہ برداشت نہیں ہے کہ نماز میں دنیا کے معاملے میں فکر کروں۔4
حضرت سعید بن معاذ ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی کوئی ایسی نماز نہیں پڑھی، جس میں دنیا کی فکر میرے دل میں پیدا ہوئی ہو۔5
خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو اس اہتمام سے باجماعت نماز پڑھتے ہیں اور اپنے نبی ﷺ کی اس شعبہ میں پیروی کرتے ہیں کہ آپ کا نماز میں یہی عالم ہوتا تھا۔ ایک صحابی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ہیں اور آپ کا سینہ ہانڈی کی طرح جوش مار رہا ہے اور آہ وبکا کا ایک شورسا بپا ہے، اس کی آواز عرشِ معلی تک اپنا اثر قائم کر رہی ہے۔ یہ اور اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں جن کی تفصیل یہاں مقصود نہیں ہے، اور یہ سب کیوں نہ ہو جب کہ ساری عبادت واطاعت کی جان یہی اخلاص ہے: {وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}1
اس اثر کے رسوخ کے لیے ریا کاری، دکھاوا، شہرت اور عزت کے سارے بت پاش پاش کردیے جائیں، جو راستہ کا پہاڑ ہیں اور گمراہی کا سرچشمہ۔ قرآن نے پکار کر کہا:
{فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَO الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَO الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُوْنَO وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَO}2
ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نمازوں سے بے خبر ہیں، اور جو اپنی نمازوں میں ریا کاری کرتے ہیں اور برتنے کی چیزوں کو روکتے ہیں۔
دربارِ الٰہی اسلام کی نظر میں