رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو برابر فرماتے تھے، جب ہم لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے، اور جب ہم برابر ہو لیتے تو آپ تکبیر کہتے تھے۔
دائیں اور بائیں صفوں کو دیکھ کر فرماتے: ’’سیدھے کھڑے ہو اور اپنی صفوں کو شرعی حیثیت کے مطابق درست کرلو‘‘۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے:
کان رسول اللّٰہ ﷺ یقول عن یمینہ: اِعْتَدِلُوْا وَسَوُّوْا صُفُوْفَکُمْ۔ وعن یسارہ: اِعْتَدِلُوْا، وَسَوُّوْا صُفُوْفَکُمْ۔ (أبو داود)
رسول اللہ ﷺ دائیں طرف متوجہ ہو کر فرماتے: ’’ٹھیک طور پر کھڑے ہو جاؤ اور اپنی صفوں کو درست کرلو‘‘ اور بائیں جانب متوجہ ہو کر فرماتے: ’’درست ہو جاؤ اور اپنی صفوں کو ٹھیک کرلو‘‘۔
اس قدر تو خود کرتے، مزید برآں حضرت بلال ؓ جو مؤذن تھے، ان کی ڈیوٹی مقرر فرما دی تھی کہ وہ صفوں کو درست کرائیں اور وہ بھی یہ فریضہ انجام دیتے تھے۔
أن بلالا کان یسوي الصفوف، ویضرب عواقیبہم بالدرۃ، حتی یستووا۔ (کتاب الصلاۃ وما یلزمہا للإمام أحمد: ۱۱)
حضرت بلال ؓ صفوں کو درست فرماتے اور درہ مار کر ان کی ایڑیوں کو سیدھی کرتے تھے، تاآں کہ وہ برابر ہو جاتے۔
فاروقِ اعظم ؓ کا اہتمام:
صحابۂ کرام ؓ نے بھی اپنے زمانے میں اس اہتمام کو باقی رکھا، چناں چہ حضرت عمر فاروق ؓ کا دستور تھا کہ نماز شروع کرنے سے پہلے صفوں کی دیکھ بھال کرلیتے اور صفوں کی درستی کے بعد نماز شروع کرتے، بلکہ آپ نے بھی ایک مستقل آدمی اس کام کے لیے مقرر کردیا تھا جو صف میں گھوم کر دیکھتا اور آکر درستی کی خبر دیتا۔ حضرت احمد بن حنبل ؒ جیسے جلیل القدر محدّث کا بیان ہے:
جاء عن عمر ؓ أنہ کان یقوم مقام الإمام، لا یکبر حتی یأتیہ رجلٌ قد وکَّلہ بإقامۃ الصفوف، فیخبرہ: أنہم قد استووا، فکبر۔ وجاء عن عمر بن عبد العزیز ؒ ہکذا۔ (کتاب الصلاۃ وما یلزمہا)
حضرت عمر ؓ کے متعلق آیا ہے کہ وہ مصلّے پر آکر کھڑے ہو جاتے اور اس وقت تک تکبیر نہیں کہتے تھے، جب تک ایک آدمی جو اس کام پر مقرر تھا، آکر خبر نہ کرتا کہ صف درست اور لوگ برابر ہوگئے، جب یہ اطلاع مل جاتی تو تکبیر کہتے۔ عمر بن عبدالعزیز کا بھی یہی دستور بیان کیا گیا ہے۔