کی یاد، اس کی تسبیح وتقدیس اور عبادت کے لیے مخصوص ہے۔ صاحب ’’جمل‘‘ لکھتے ہیں:
المعنی أفردوا المساجد بذکر اللّٰہ، ولا تجعلوا لغیر اللّٰہ فیہا نصیبا۔ (۴/۴۲۲)
معنی یہ ہے کہ مسجدوں کو اللہ تعالیٰ کی یاد کے لیے مخصوص کرلو اور غیر کے لیے اس میں کوئی حصہ نہ بناؤ۔
اس سے واضح تر عبارت ’’التفسیرات الأحمدیۃ‘‘ کی ہے:
إلا أنہا علی ظاہرہا مما یستدل بہا علی أنہ لا یجوز في المسجد التکلم بکلام الدنیا۔ (ص: ۵۹۸)
اس آیت کے ظاہر سے استدلال کیا گیا ہے کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا جائز نہیں ہے۔
قرآنِ پاک میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ}۔1
ان گھروں میں جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اللہ کا نام لیا جائے۔
اس آیت میں بھی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسجدوں میں صرف ذکر اللہ ہی کی قسم کی چیزیں ہونی چاہیے، کیوں کہ یہاں {بُیُوتٍ} سے مساجد مراد ہیں، اور یہ بات ظاہر ہے کہ ان کی قدر ومنزلت بھی اسی میں ہے کہ دنیاوی باتوں سے پرہیز کیا جائے، وہاں پہنچ کر دھیان سب سے کٹ کر اللہ تعالیٰ پر ہو۔ اس آیت کے ضمن میں ابوبکر جصاص تحریر فرماتے ہیں:
ہذا یدل علی أنہ یجب تنزیہہا من القعود لأمور الدنیا: مثل البیع والشراء وعمل الصناعات ولغو الحدیث الذي لا فائدۃ فیہ، والسفہ وما جری مجری ذلک۔ (أحکام القرآن: ۳/۴۰۴)
یہ آیت بتاتی ہے کہ مسجدوں کو دنیاوی کاموں سے پاک وصاف رکھنا واجب ہے، جیسے خرید وفروخت، دست کاری اور ایسی باتیں کرنا جو بے فائدہ ہیں، اور اسی طرح نادانی وغیرہ کی باتیں کرنا۔
رحمتِ عالم کی پیشین گوئی اور امت کو ہدایت:
میں نے یہ اس لیے نقل کیا تاکہ اصل مسئلہ کھل کر اہلِ علم کے سامنے آجائے اور ان کو کوئی اشکال پیدا نہ ہوسکے، ورنہ سب کو معلوم ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ کے زمانے میں ان کا کیا احترام تھا اور آپ کے خلفا واصحاب نے اس احترام کو کیسے نبھایا۔ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں ایسی باتوں کا عوام مسلمانوں کو وہم وگمان بھی نہ تھا، آں حضرت