کی ادائیگی میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اپنے تو اپنے اغیار نے ہمارے خلفائے راشدین کے اس منصب کو سراہا ہے، اور نظاموں پر اسلام کے اس نظام کو ترجیح دی ہے۔
کیا یہ واقعہ نہیں کہ مسجد کے منبر کو دستوری حکومت کے تخت کی حیثیت حاصل تھی جہاں سے جمہوری حکومت کی پالیسی کا اعلان ہوتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل آیندہ اوراق میں ملاحظہ کریں گے۔
قدرتی نظامِ اجتماع
اب ذرا تفصیلی طور پر اس قدرتی حسنِ انتظام کی حکمتوں میں غور وفکر کرنا ہے کہ حضرت حق جل مجدہٗ نے نظامِ مساجد میں مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی دینی ودنیوی فلاح ونجاح کو کس عمدگی کے ساتھ جمع فرما دیا ہے۔
اجتماع کے مرکزی گھر:
اس میں توشبہ نہیں کہ مسجدوں کا قدرتی نظام ہی اس لیے قائم کیا گیا ہے کہ انتشار وتشتت اور نفاق وشقاق کا قلع قمع کردیا جائے، اور بکھرے موتیوں کو ایک سلکِ گہر میں پروکر اللہ تعالیٰ کے مقدّس دربار میں ایک صف اور ایک جماعت کے اندر بغل گیر کردیا جائے، اور پوری نیاز مندانہ شان سے کھڑا کرکے دن رات کے پانچ وقتوں میں ان کی زبان سے یہ دعا بار بار دہرائی جائے:
اے وہ ذات کہ سب تعریفیں تجھ ہی کو زیبا ہیں! ہمیں سیدھا راستہ دکھا، ان برگزیدہ بندوں کا راستہ جن پر تونے انعام واکرام فرمائے، ان ملعون انسانوں کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب ہے، اور نہ ان کا راستہ جو راہِ راست سے بھٹک کر گمراہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نماز کا درجہ توحید کے بعد ہی رکھا گیا ہے اور اسلام کی نبیادی چیزوں میں اس کو خاص اہمیت دی گئی ہے، پھر توحید کی جھلک جماعت کی نماز میں قائم رکھ کر مسجدوں کا نظام قائم کیا اور ان کے ذریعے عبادت کی روح اور اطاعت کی جان کو اجاگر کیا۔