۲۴۔ یک جابطورِ اجتماعی دعا وذکر میں مشغول ہو کر برکت سے منتفع ہونا۔
۲۵۔ ایک گھر میں جمع ہو کر پڑوسیوں کا رات دن ملنا اور اس نظام کے ذریعے ہر ایک کے حالات سے باخبر ہونا۔
یہ پچیس فائدے جماعت کی نماز کے ایسے ہیں جس سے کسی کو انکار کی جرأت نہیں ہوسکتی، اور ان میں ہر ایک اپنی مخصوص فضیلت کی وجہ سے مستقل عبادت کی حیثیت رکھتا ہے،
ان کے پیشِ نظر ماننا پڑتا ہے کہ اجر کا دو چند اور زیادہ سے زیادہ ہونا، مسجد کے نظام سے جکڑا ہوا ہے۔ بہرحال یہ وہ فائدے ہیں جو ہر جماعت کی نماز میں پائے جاتے ہیں، وہ سری نماز (آہستہ قرأت والی) ہو، یا جہری (کہ جس میں بلند آواز سے قرأت کی جائے)۔ باقی دو فائدے ایسے ہیں جو جہری نماز کے ساتھ مختص ہیں: ایک امام کے پڑھتے وقت خموشی سے بغور سننا، اور دوسرے امام کے آمین کہتے وقت مقتدی کا بھی آمین کہنا کہ موافقت ممکن ہوسکے۔
دلوں پر قبضہ:
اسلام نے جبر وتشدد کی راہ چھوڑ کر حتی الامکان دلوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی ایسی عبادت کرے جس میں دل کو ارتباط نہ ہو، بلکہ اس نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ کسی درجے میں انسان کا دل گرانی محسوس کرے۔ چناں چہ آپ احکامِ اسلام میں غور وفکر سے کام لیں گے تو معلوم ہوگا، ہر ہر قدم پر ترغیب کی راہ اختیار کی گئی ہے، اور حتی الوسع جبروا کراہ کو ترک کر کے تالیفِ قلوب سے کام لیا گیا ہے۔ ایک دفعہ رحمتِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَعْظَمُ النَّاسِ أَجْرًا فِي الصَّلَاۃِ أَبْعَدُہُمْ، فَأَبْعَدُہُمْ مَمْشًی، وَالَّذِيْ یَنْتَظِرُ الصَّلَاۃَ حَتَّی یُصَلِّیَہَا مَعَ الإِمَامِ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِيْ یُصَلِّيْ ثُمَّ یَنَامُ۔ (البخاري: باب فضل صلاۃ الفجر في جماعۃ)
’’نماز میں اس شخص کو زیادہ ثواب ملتا ہے جو جس قدر دور سے چل کر آتا ہے، اور جماعت کے انتظار میں جو شخص بیٹھا رہتا ہے وہ ثواب میں اس سے بڑھا ہوا ہے جو جماعت کا انتظار نہیں کرتا اور نماز پڑھ کر سو رہتا ہے‘‘۔
لب ولہجہ پر بار بار غور کیجیے، کس قدر شیریں اور دل نشین ہے، کلام میں درشتی اور سختی کا کہیں پتہ نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی موقعہ پر بھی سختی سے کام نہیں لیا گیا، چوں کہ اسلام میں ایک مستقل گروہ منافقین کا تھا جو مسلمانوں میں اپنے طرزِ عمل سے تساہلی اور کاہلی کا پرچار کرتا تھا، اس لیے موقع موقع سے ایسی صورت بھی عمل میں لانی پڑی ہے کہ ان