انھی تفصیلات کے پیشِ نظر واقف کے لیے لازم ہے کہ مسجد کو اس کے راستے سمیت علیحدہ کردے اور نماز کی عام اجازت دے دے، اور یہ اعلان کردے کہ میں نے اس جائز حصے کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کردیا۔ عملی طور پر اس میں باجماعت نماز پڑھی جانے لگے، اذان پکاری جائے اور واقف اپنے دوسرے قسم کے اختیارات اٹھالے۔ اس قدر کر چکنے کے بعد اس کو یہ اجازت نہیں ہے کہ مسجد کے کسی حصے سے کسی طرح کا ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اس کے بعد نہ اس مسجد کے نیچے کوئی مکان بنا سکتا ہے اور نہ اس کے اوپر، مسجد کا پورا حصہ تحت الثریٰ سے لے کر آسمان تک ہمیشہ کے لیے واقف کے ذاتی قبضہ وتصرف سے نکل گیا۔ خدانخواستہ اگر کسی سماوی آفت، یا کسی اور وجہ سے مسجد ویران بھی ہو جائے، کوئی نماز پڑھنے والا باقی نہ رہے اور مسجد کی عمارت برباد ہو جائے، تو بھی یہ حصہ مسجد ہی کے حکم میں باقی رہے گا، نہ اسے کوئی فروحت کرسکتا، نہ کوئی وراثت میں لے سکتا ہے، اور نہ واقف رجوع ہی کرسکتا ہے، اور نہ کوئی انسان اسے اپنے ذ۱تی تصرف، یا کسی ایسے کام میں لاسکتا ہے جو مسجدیت کے خلاف ہو۔ واقف تک کو وقف کے بعد اتنی اجازت نہیں ہے کہ اس کی دیوار کے سہارے کوئی کام لے۔ 3
جزوی مسائل:
مسجد کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر فقہا نے صراحت کردی ہے کہ کوئی ایسی مسجد بنائے کہ دو منزلہ عمارت میں ایک منزل مسجد بنادے اور دوسری منزل اپنے تصرف میں رکھے، تو یہ مسجد قرار نہ پائے گی، مسجد اسی وقت ہوگی جب وہ اس کے دونوں حصے نیچے سے اوپر تک مسجد بنائے۔ 1
کسی نے اپنی افتادہ زمین ہمیشہ کے لیے نماز باجماعت پڑھنے کے لیے دے دی اور کوئی قید سال، مہینے کی نہیں لگائی، تو اس دینے والے کے مرنے کے بعد یہ زمین اس کام کے لیے ہو جائے گی، وارث کو اس میں حصہ نہ ملے گا۔ ہاں! مقید ہو تو وارث کو مل جائے گی۔2 یہ زمین، جب کہ اس نے اپنی صحت کے زمانے میں دی ہو (یا مرض الموت سے پہلے)۔
کوئی راستہ اس قدر کشادہ ہو کہ اگر وہاں مسجد بنائی جائے تو اس سے راستے کا کچھ نقصان نہ ہو، ایسی صورت میں اہلِ محلہ نے جب مسجد راستہ پر بنالی تو یہ جائز ہے، دو ایک کی مخالفت کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ ہاں! مسجد بننے سے چلنے والوں کو ضرر ہو، تو بلاشبہ مسجد بنانا درست نہیں ہے۔ 3