بھی باعثِ ثواب بنتی ہے، یعنی وہاں سے چل کر جب مسجد آنا ہوتا ہے تو چلنا زیادہ پڑتا ہے، اور اسی اعتبار سے ثواب میں اضافہ ہوتا ہے، کیوں کہ یہاں ہر قدم پر نیکی لکھی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی ایک پُرلطف بات ہے کہ آدمی جب گھر سے باوضو مسجد کے لیے نکلتا ہے تو گویا وہ نماز ہی میں ہوتا ہے، اس طرح اجر میں کچھ اضافہ کی توقع ہے۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا:
اَلْأَبْعَدُ فَالْأَبْعَدُ مِنَ الْمَسْجِدِ أَعْظَمُ أَجْرًا۔ (أبو داود، باب ما جاء في فضل المشي إلی الصلاۃ)
’’مسجد سے جو جس قدر دور ہوتا ہے اور وہ آتا ہے، اس کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے‘‘۔
حضرت اُبی بن کعب ؓ ایک انصاری کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ یہ صاحب میرے علم میں مسجد سے (نمازیوں میں) سب سے دور رہتے تھے، مگر ان کا حال یہ تھا کہ ہر وقت بپابندی مسجد حاضر ہوتے تھے، کبھی بھی ان کی جماعت نہیں چھوٹتی تھی۔ ایک مرتبہ ان سے کہا گیا کہ کاش! آپ سواری کے لیے ایک گدھا خرید لیتے، تاکہ آپ کو رات کی تاریکی اور تپتے دن میں مسجد آنے میں آرام رہتا۔ انھوں نے یہ سن کر فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں مسجد کی بغل میں ہوتا اور چلنے کی مشقت سے بچتا، بلکہ میری تو خواہش یہ ہے کہ آنے جانے میں جو قدم اٹھیں ان کے تمام نشانِ قدم میرے نامۂ اعمال میں لکھ دیے جائیں، آنے کے بھی اور واپسی کے بھی۔ آں حضرت ﷺ کو جب اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’آمدورفت دونوں کے ثواب اللہ تعالیٰ نے تم کو عطا کیے‘‘۔1
ایک دفعہ رسول الثقلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب کوئی پاک وصاف ہو کر با وضو کسی مسجد کے لیے چلتا ہے کہ فریضہ ادا کرے، تو ایسے شخص کا ایک قدم گناہ کو مٹاتا ہے، اور دوسرا درجے کی بلندی کا ذریعہ ہوتا ہے‘‘۔ 2
سفر سے واپسی پر مسجد کی حاضری:
مساجد کی ایک عظمتِ شان یہ بھی ہے کہ آں حضرت ﷺ سفر سے جب واپس ہوتے تو سب سے پہلے مسجد ہی میں تشریف لاتے اور دو رکعت نماز ادا فرماتے، وہاں لوگوں سے مل جل کر گھر تشریف لے جاتے۔ آپ کے بعد صحابۂ کرام ؓ کا واپسیٔ سفر پر یہی دستور ہوگیا تھا کہ مسجد میں اُترتے، نماز ادا کرتے، پھر منزلِ مقصود کی طرف چلتے۔ اب بھی مسلمانوں کے لیے یہی طریقہ مسنون ہے۔3
اعتکاف جو ایک سنت طریقہ ہے اور بیش قیمت فوائد پر مشتمل ہے، اس کے لیے بھی مسجد شرط ہے۔