أنہا واجبۃ، وتسمیتہا سنۃ؛ لوجوبہا بالسنۃ۔ (فتح القدیر: ۱/۱۳۹)
بلاشبہ ہے تو جماعت واجب، مگر سنت اس لیے کہا گیا ہے کہ جماعت کا وجوب سنت (حدیث) سے ہے۔
حدیث میں جماعت کے متعلق جہاں ’’سنت‘‘ کا لفظ آیا ہے، اس کے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں:
مگر اینجا طریقہ مسلوک کہ دردین مراد دار ند! بآآں کہ ثبوت وجوب از سنت است۔ (أشعۃ اللمعات قلمی: ۱/۲۴۹)
’’سنن ہدیٰ‘‘ کی مراد یہاں دین کا چلا ہوا راستہ ہے، یا یہ مراد ہے کہ جماعت کا وجوب سنت سے ثابت ہے۔
ابن الہمام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی بغیر عذرِ شرعی بجائے مسجد، گھر میں باجماعت نماز ادا کرے، تو اس شخص کا ایسا کرنا بدعت ہے، خواہ یہ فعل اس کا گاہے بگاہے کیوں نہ ہو۔ 1 بشرط یہ کہ اس کے قصدو ارادہ کو دخل ہو۔
شکستِ جماعت کی سزا:
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جماعت کی نماز محققین کے یہاں کم از کم وجوب کا درجہ رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو شخص بغیر عذرِ شرعی جماعت کی نماز کا تارک ہو اور وہ اس کا تقریباً عادی ہوچکا ہو، تو شرعاً اس کی گواہی مردود قرار دے دی جائے گی اور اس کو پیٹا جائے گا، پھر قید میں ڈال دیا جائے گا۔ اور اس کے پڑوسیوں پر حق ہے کہ ایسے شخص کو سمجھائیں بجھائیں، اور جماعت سے غیر حاضر ہونے پر سکوت نہ کریں، ورنہ وہ شریعت کی نظر میں گناہ گار ہوں گے۔
یہ سزا تو اس وقت ہے جب کوئی ایک دو شخص کریں، اور اگر خدانخواستہ پوری آبادی جماعت کی نماز چھوڑ دے تو ان سے قتال کیا جائے گا، کیوں کہ یہ ایک بڑے شعارِ دین کو ترک کر رہے ہیں۔ صاحب ’’التحریر المختار‘‘ کے الفاظ یہ ہیں:
فلو أن أہل مصر ترکوہا قوتلوا، وإذا ترک واحد ضرب وحبس، کما في ’’الخلاصۃ‘‘۔ (۱/۶۹)
اگر تمام اہلِ شہر جماعت کی نماز ترک کردیں تو ان سے قتال کیا جائے، اور جب کوئی ایک فرد تارکِ جماعت ہو تو اس کو پیٹا جائے اور قید کردیا جائے، ایسے ہی ’’خلاصہ‘‘ میں ہے۔
نظمِ جماعت کا اہتمام عہدِ نبوی میں: