احترامِ مسجد ہی سے یہ بھی ہے کہ اس میں اشعار غزل کی طرح کے نہ پڑھے جائیں، بوقتِ ضرورت حمد ونعت کی اجازت ہے، یا ایسے اشعار جن کا تعلق اسلام کی حقانیت وصداقت سے ہو، جائز ہے، مگر یہ سب بھی اسی وقت جب اس سے مسجد کے بنیادی کام میں حرج نہ ہو۔ حدیث میں ہے:
نَہَی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنْ تَنَاشُدِ الْأَ شْعَارِ فِي الْمَسْجِدِ، وَعَنِ الْبَیْعِ وَالْاِشْتِرَائِ۔ (المشکاۃ عن أبي داود وغیرہ: باب المساجد)
رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اشعار پڑھنے اور خرید وفرخت سے منع فرمایا ہے۔
معلوم ہوا مسجد میں بیع وشرا کی بھی اجازت نہیں ہے، وجہ کھلی ہوئی ہے کہ یہ ساری چیزیں مسجد کے مقصودِ اصلی سے خارج ہیں، بلکہ ان میں بعض اوقات مسجد کی توہین اور بے ادبی کا اندیشہ ہے۔
بچوں اور پاگل وغیرہ سے اجتناب:
مسجد میں ناسمجھ اور بے عقل کے آنے کی بھی اجازت نہیں، چاہے وہ بچہ ہو جس کو کوئی شعور نہ ہو، یا کوئی پاگل مخبوط الحواس ہو، کہ دونوں ہی احترامِ مسجد کو نہیں سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی ایسی بات کر بیٹھیں جو آدابِ مسجد کے خلاف ہو فقہا نے لکھا ہے کہ ان کے داخل ہونے میں تلویثِ مسجد کا گمان غالب ہو تو حرام ہے، ورنہ مکروہِ تنزیہی، پھر چوں کہ ان کو عقل نہیں ہے اس لیے ان کو روکنے کا حکم ان کو دیا گیا ہے جو عقل والے ہیں۔ رحمتِ عالم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
جَنِّبُوْا مَسَاجِدَکُمْ صِبْیَانَکُمْ، وَمَجَانِیْنَکُمْ، وَشِرَائَکُمْ، وَبَیْعَکُمْ، وَخُصُوْمَاتِکُمْ، وَرَفْعَ أَصْوَاتِکُمْ، وَإِقَامَۃَ حُدُوْدِکُمْ، وَسَلَّ سُیُوْفِکُمْ۔ (ابن ماجہ: باب ما یکرہ في المساجد)
’’اپنی مسجدوں کی حفاظت کرو اپنے بچوں سے، پاگلوں سے، خرید وفروخت سے، جھگڑوں سے، شور وغل سے، اقامتِ حدود سے، اور تلوار کے کھینچنے سے‘‘۔
حدود کا اجرا: