اجتماعیت اور اخوت ومساوات:
پس یہ بات واضح ہوگئی کہ صفوں کی مشروعیت میں انفرادی زندگی کا خاتمہ ہے اور اجتماعی زندگی کی دعوت، عدل ومساوات کی تعلیم ہے، اور اخوت ومحبت کا سبق جن کو اشاعتِ اسلام میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
اسلام منفردانہ زندگی کی مذمت کرتا ہے، قانونی طور پر بھی اور عملی نقطۂ نظر سے بھی انتشار، تشتت اور اختلاف ومخاصمت کو وہ ایک منٹ کے لیے برداشت نہیں کرتا، اور ہر شعبۂ زندگی میں اتحاد واتفاق کا مظاہرہ اس کی سرشت میں داخل ہے۔ آں حضرت ﷺ کسی کو دیکھ لیتے ہیں کہ وہ جماعت میں شریک نہیں، یا صف میں علیٰحدہ تنِ تنہا کھڑا ہے، تو حیرت اور ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہیں۔ چناں چہ ایک دفعہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ صف کے پیچھے یکہ وتنہا نماز پڑھ رہا ہے، تو آپ نے زجر فرمایا اور نماز کے اعادہ کا حکم دیا۔1
امام کا انتخاب:
اب غور کرنا ہے کہ مقتدی کو جس امام کی پیروی کی اتنی سخت تاکید ہے اور شریعت نے جس کو یہ مرتبہ عطا کیا ہے، کیا وہ جگہ ہر شخص کو علم وفضل کا لحاظ کیے بغیر مل سکتی ہے؟ ہر ذی عقل یہی کہے گا کہ ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے، یقینا اس منصبِ جلیل کے لیے اس جماعت میں سے اس فرد کو منتخب کیا جائے گا، جو ان میں بہترین اخلاق واطوار کا ہو، زہد واتقا کا مالک ہو، اور علم وفضل میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔
امام کس حیثیت کا ہونا چاہیے؟