کہ اس سے شیرازۂ دینی بکھر جائے گا۔ عبادات کا عروۃ الوثقی مضمحل ہو جائے گا، اور مسجد کی رونق جاتی رہے گی۔
سلفِ صالحین کی احتیاط:
سلف صالحین ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے جن میں مسجد ضرار کی ذرہ برابر بو آجاتی تھی، اور اسی وجہ سے وہ نماز پڑھنے میں پرانی اور قدیم مسجد کو ترجیح دیتے تھے۔ مختلف علما نے ان امور کی طرف جگہ جگہ اشارہ کیا ہے، عموماً اس طرح کی مسجدیں شہرت وعزت اور ریا کاری کے لیے بنائی جاتی ہیں، اور جو مسجدیں ان اغراضِ فاسدہ کے لیے وجود میں آئی ہوں، وہ بلاشبہ مسجدِ ضرار کی شکل میں ظاہری طور پر بھی آجاتی ہیں11 (تفسیر مدارک علی الخازن: ۲/۲۶۵) جس سے اجتناب بہرحال ضروری ہے۔
تعمیر سے پہلے نیت کی اصلاح:
یہاں یہ مسئلہ صاف کرلینا چاہیے کہ اگر کوئی محروم القسمت مسجد بنائے، مگر اس کی نیت نام ونمود، عزت وشہرت اور ریا کاری ہو، تو اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ اس اہم سوال کا جواب پیش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اصلاحِ نیت اور اخلاصِ عمل پر مختصر سی روشنی پڑ جائے، تاکہ اس مسئلے کی اہمیت اُجاگر ہو جائے۔
حضرت عمر ؓ بن الخطاب سے ایک حدیث مروی ہے جس کو محدثین ’’أمہات الدین‘‘ میں شمار کرتے ہیں۔ صاحب ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ نے، بلکہ خود بخاری ؒ نے اپنی ’’جامع صحیح‘‘ میں پہلی حدیث اسی کو نقل کیا ہے، اور کتاب شروع کرنے سے پہلے اصلاحِ نیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ الفاظِ حدیث یہ ہیں:
قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَانَوَی، فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ، فَہِجْرَتُہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ، وَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہُ إِلَی دُنْیَا یُصِیْبُہَا أَوْ إِلَی امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُہَا، فَہِجْرَتُہ إِلَی مَا ہَاجَرَ إِلَیْہِ۔ (بخاری وغیرہ)