ادب یہ بھی ہے کہ ظاہری ہیئت عمدہ سے عمدہ ہو، ایسی عمدہ جو شریعت کی نظر میں خراجِ تحسین حاصل کرسکے۔
حتی المقدور کپڑے پاک وصاف ہونے کے ساتھ صاف ستھرے ہوں، کرتہ کی آستین پوری ہو، اگر قدرت نے وسعت عطا کی ہے تو خوشبو مل لیں، تاکہ پسینہ وغیرہ کی بو بالکلیہ جاتی رہے اور فرشتوں کو کوئی اذیت نہ پہنچنے پائے۔ ارشادِ ربانی ہے: {یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ}2 اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباسِ زینت پہن لیا کرو۔
اس آیت سے مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ مسجد کی حاضری میں ہیئت حتی الوسع اچھی ہو۔ ابنِ کثیر وغیرہ کے اقوال اس سلسلے میں قابلِ ملاحظہ ہیں۔
باوقار واطمینان آئے:
مسجد آتے ہوئے یہ خیال رہے کہ ہم ایک بڑی عبادت کے لیے بڑے گھر کی طرف جا رہے ہیں، اس لیے رفتار میں پورا وقار، اعتدال اور سکینت نمایاں ہو، ایسی رفتار ہرگز نہ اختیار کی جائے جس سے دیکھنے والا ہلکا پن محسوس کرے اور عام نظروں میں مضحکہ خیزی کی حد تک پہنچ جائے، ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ نماز کا ارادہ کرنا بھی نماز ہی کے حکم میں ہے۔ لہٰذا راستہ چلتے ہوئے لہو ولعب، ہنسی مذاق اور ناجائز چیزوں پر نظر سے پرہیز کیا جائے، اور یہاں بھی حتی الوسع نماز کے خلاف امور سے پورا اجتناب کیا جائے۔ نگاہ نیچی، دل میں محبت وخشیّت اور امید وبیم کی کیفیت طاری ہو، چہرہ پر تواضع اور تذلل کے آثار ہوں، مگر یہ سب کسی اور کے لیے ہرگز ہرگز نہ ہو، محض رب العالمین کے لیے ہو۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان آیا ہے:
إِذَا سَمِعْتُمُ الإِقَامَۃَ فَامْشُوْا إِلَی الصَّلَاۃِ، وَعَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ وَالْوَقَارِ، وَلَا تُسْرِعُوْا۔ (باب ما أدرکتم فصلوا)
’’تم جب اقامت سنو تو نماز کے لیے اس طرح چلو کہ تم پر سکینت ووقار طاری ہو، اور دوڑو مت‘‘۔
وَأْتُوْہَا وَعَلَکْیُمُ السَّکِیْنَۃُ، فَمَا أَدْرَکْتُمْ فَصَلُّوْا، وَمَا فَاتَکُمْ فَأَتِمُّوْا؛ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ إِذَ کَانَ یَعْمِدُ إِلَی الصَّلَاۃِ فَہُوَ فِي الصَّلَاۃِ۔ (مسلم: باب استحباب إتیان الصلاۃ)
’’نماز کے لیے اس طرح آؤ کہ تم پر وقار واطمینان ہو، جو پالو پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پورا کرلو، جب تم میں کا کوئی نماز کا ارادہ کرتا ہے تو ہ حکماً نماز ہی میں ہوتا ہے‘‘۔