میں استخفاف اور استہانت سے بچنے کے لیے مسجدوں کی بھی تزئین ہونی چاہیے، حتی کہ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ سلف صالحین کی اتباع میں روکنا تو جائز ہے، مگر کسی اور درجہ سے مسجد کی تزئین روکنا مناسب نہ ہوگا۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے بھی اس کی اجازت دی ہے، مگر اس وقت جب یہ تزئین ونفاست تعظیم وتکریم کی نیت سے ہو، اور روپے اپنے پاس کے ہوں، وقف یا بیت المال کے نہ ہوں۔
فقہا کی تفصیل:
لیکن اس میں بھی شبہ نہیں ہے کہ دوسرے بہت سے علما اس تزئین کے خلاف ہیں، اور ان کی دلیل بہت قوی اور حدیث کے نقطۂ نظر کے بہت قریب ہے، اس سلسلے کی حدیثیں ابھی اوپر گزر چکی ہیں۔2 امام اعظم ؒ جنھوں نے اجازت دی ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تزئین خلافِ اولیٰ ہے، اور ان کے اقوال کی تفصیل کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ذاتی رجحان اسی طرف ہے کہ مسجدیں سادہ بنائی جائیں، اور جو روپے نقش ونگار اور گل کاری میں خرچ ہوں اچھا یہ ہے کہ انھیں فقرا ومساکین پر خرچ کیا جائے، جو واقعی امداد واعانت کے مستحق ہیں۔
فقہ حنفی میں یہ بھی مصرّح ہے کہ محرابِ قبلہ کی دیوار اور داہنی اور بائیں جانب کی دیواریں سادہ رکھی جائیں، ان پر پھول پتیاں نہ بنوائی جائیں، کیوں کہ ان کی کراہیت میں کسی کو بولنے کی گنجائش نہیں ہے، وجہ ظاہر ہے کہ محراب کی تزئین امام کے خشوع اور یکسوئی کے لیے زہرِ قاتل ہے جو پوری جماعت کا سردار ہے۔ قبلہ کی دیوار کی زینت اور گل کاری اس لیے منع ہے کہ صفِ اول کے نمازیوں کے خضوع کے لیے مضر ہے، اور دائیں اور بائیں کی دیواریں ان لوگوں کے لیے مخل ہوں گی جو ان کے قریب کھڑے ہوں گے۔
غور کیجیے جو چیزیں نماز کے انہماک اور احسان ہی کو کھو ڈالیں، جو نماز کی روح اور قلب کا درجہ رکھتی ہے، ان کو شریعت کیوں کر پسند کرسکتی ہے؟ لے دے کر پیچھے والی دیوار اور چھت رہ جاتی ہے جن کے متعلق اجازت سمجھ میں آتی ہے، مگر وہ بھی خلافِ اولیٰ ہے۔ یہ ساری تفصیل مسجد کے اندرونی حصے کی ہے، باقی رہا مسجد کا بیرونی حصہ جس کو اندر سے کوئی تعلق نہیں، اس حصے کے متعلق فقہ حنفی میں بالکل اجازت نہیں ہے کہ اس کا تعلق باہر سے ہے جس سے اہلِ مسجد کو کوئی لگاؤ نہیں۔1