پیدل آئے:
مسجد پیدل چل کر آنا چاہیے، بغیر عذرِ شرعی سواری سے آنا اچھا نہیں، تاکہ ہر قدم کا اجر نامۂ اعمال میں لکھا جائے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے۔ آں حضرت ﷺ کا دستور بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ پیدل مسجد آنا باعثِ کفارۂ گناہ ہے، جیسا کہ ایک لمبی حدیث میں پورا واقعہ گزر چکا ہے، جس میں آں حضرت ﷺ نے اپنا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کی
رؤیت غنودگی کی حالت میں میسر آئی۔ رب العزت نے مجھ سے ملائے اعلیٰ کے بارے میں سوال کیا، میں نے اپنی لاعلمی ظاہر کی، آخر کار اس نے اپنا دستِ قدرت مجھ پر ڈالا جس کا اثر میں نے محسوس کیا۔ اس کے بعد رب العزت کی طرف سے پھر وہی سوال ہوا، اب میں نے کہا کہ ’’فرشتے کفاراتِ گناہ میں جھگڑ رہے ہیں، یعنی کون ایسے عمل ہیں جو گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتے ہیں، میں نے تفصیلی جواب دیا‘‘۔ اسی حدیث میں پہلا جملہ یہ ہے:
وَالْمَشْيُ عَلَی الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ۔ (المشکاۃ: باب المساجد)
’’جماعت کے لیے پاؤں پاؤں چلنا‘‘ (باعثِ کفارۂ گناہ ہے)۔
پہلے دایاں پیر داخل کرے:
راستہ اس طرح طے کر کے جب مسجد کے دروازے پر پہنچ جائیں، ذرا قلب وجگر تھام لیں کہ اب ایک بڑے دربار میں داخلہ ہو رہا ہے۔ علمائے سلف اور صوفیائے کرام کے حالات میں میری نظر سے ایسے واقعات گزرے ہیں جس کا تصور بھی آج کل مشکل ہی سے ہوسکتا ہے، بعض بزرگانِ دین کا مسجد کے دروازے پر پہنچ کر رنگ بدل جاتا تھا اور ان کی عجیب کیفیت ہوتی تھی۔