حضرت علی ؓ کا واقعہ بھی حدیث میں مذکور ہے کہ ایک دن آں حضرت ﷺ اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کے یہاں تشریف لائے، حضرت علی ؓ غائب تھے، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ خفا ہوکر چلے گئے ہیں، آپ نے تلاش کروایا تو معلوم ہوا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں، آپ خود مسجد میں تشریف لائے، دیکھا چادر پہلو سے ہٹی ہوئی ہے اور پہلو گرد آلود ہورہا ہے، یہ دیکھ کر آپ نے شفقت سے گرد جھاڑی اور فرمایا: قم أبا تراب، قم أبا تراب2 (اے ابو تراب اٹھو، اٹھو)۔ ’’تراب‘‘ عربی میں مٹی کو کہتے ہیں اور ’’أب‘‘ باپ کو۔
مفادِ عامہ سے متعلق چیز:
ایسی چیز جو کسی خاص کی ملکیت نہ ہو، بلکہ اس کا تعلق عام مسلمانوں سے ہو، مسجد میں رکھی جاسکتی ہے اور وہاں بیٹھ کر مسلمانوں میں تقسیم بھی کی جاسکتی ہے۔ مالِ غنیمت، زکاۃ، فطرہ اور اسی طرح کی چیزوں کا مسجد میں جمع کرنا جائز ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ مقاصدِ نماز میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
آں حضرت ﷺ کے زمانے میں بحرین سے جب مال غنیمتِ آیا، تو اس کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا:
اُنْثُرُوْا فِي الْمَسْجِدِ (مسجد میں ڈال دو)۔ پھر آپ نے نماز پڑھ کر اسے تقسیم کر ڈالا۔1
ایک دن آپ عصائے مبارک لیے ہوئے باہر تشریف لائے، مسجد کے اندر ایک انگور کا خراب خوشہ لٹکتا ہوا نظر آیا جسے غریبوں کے لیے لٹکایا گیا تھا۔ آپ نے عصائے مبارک سے خوشہ کو مارتے ہوئے فرمایا: ’’صدقہ دینا ہو تو عمدہ انگور صدقہ دیا کرو‘‘۔2 اسی حدیث کے ضمن میں ابنِ حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مسجد میں پینے کا پانی موسمِ گرما وغیرہ میں رکھا جاسکتا ہے۔
قید کرنا:
عہدِ نبوی میں مسجد سے جیل خانہ کا بھی کام لیا گیا ہے، بعد میں جاکر اس کے لیے علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا اور بڑھتی ہوئی ضرورت اس کی متقاضی بھی تھی۔ آپ ﷺ کے زمانے کا یہ واقعہ حدیث میں مذکور ہے کہ ثمامہ بن اثال ؓ گرفتار ہو کر آئے تو ان کو مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے تو فرمایا: ’’ثمامہ کو چھوڑ دو‘‘۔ چناں چہ وہ