رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مئذنہ نہیں تھا۔
یہ مینار جو اذان کے لیے بنتا ہے، گو آں حضرت ﷺ کے زمانے میں نہ تھا، مگر یہ ایسی چیز ہے جس کا مطلوب ہونا سمجھ میں آتا ہے، حدیث سے بھی اس ضرورت کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت عروہ بن الزبیر ؓ بنی نجار کی ایک خاتون سے روایت کرتے ہیں:
کان بیتي من أطول بیت حول المسجد، فکان بلال یؤذن علیہ الفجر، فیأتي السحر، فیجلس علی البیت ینظر إلی الفجر، فإذا رآہ تمطَّی۔ (أبو داود: باب الأذان فوق المنارۃ)
میرا گھر مسجدِ نبوی کے آس پاس کے گھروں میں سب سے اونچا تھا، جس پر بلال ؓ فجر کی اذان دیتے تھے، صبح سویرے آکر گھر پر بیٹھ جاتے اور فجر دیکھتے رہتے، جونہی اس کو دیکھتے اذان کے لیے چلتے۔
’’رد المحتار‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ زید بن ثابت ؓ کی ماں ہیں، جن کا بیان ہے کہ میرے گھر پر چڑھ کر حضرت بلال ؓ اذان دیتے تھے۔ مسجد کی چھت تیار ہوئی تو اس پر سے اذان دی جاتی تھی، اذان کی جگہ ذرا بلند کردی گئی تھی۔1
اس تفصیل سے مقصد یہ بتانا ہے کہ اس کی ضرورت کا احساس پہلے سے تھا، گو باضابطہ اس کی ایجاد بعد میں ہوئی۔ شامی کے بیان کے مطابق مینار برائے اذان حضرت معاویہ ؓ کے حکم سے تیار ہوا۔ 2
منبر برائے خطبہ:
منبرِ مسجد جس پر امام جمعہ کا خطبہ دیتا ہے، اس کی ایجاد عہدِ نبوی ہی میں ہوئی۔ اول اول یہ چیز نہ تھی، غربی جانب سے قریب اور محراب سے متصل ایک لکڑی تھی، پہلے آپ اسی کے سہارے خطبہ دیتے تھے۔ ۷ھ تک یہی طریقہ باقی رہا، ۸ھ میں ایک خاتون نے درخواست کی، کہ اجازت ہو تو اپنے غلام سے منبر بنوا کر حاضرِ خدمت کروں۔ آپ نے اجازت دی اور پھر اس کا تقاضہ بھی فرمایا۔ چناں چہ اسی عورت نے منبر بنوا کر پیش کیا، اور اس کو منبر کی جگہ نصب کیا گیا۔3
اس وقت یہ عجیب واقعہ پیش آیا تھا کہ وہ لکڑی جس کے سہارے آپ پہلے خطبہ دیتے تھے، زار وقطار رونے لگی اور داغِ فرقت پر تلملا اٹھی، آپ نے اسے اپنے سینۂ مبارک سے لگایا تو اس کو سکون آیا۔ منبر شریف کے تین زینے تھے، ہر زینہ کا عرض ایک بالشت تھا، اور پورے