موجودہ دور میں تزئین:
اس زمانے میں جب کہ مسلمان مالی اعتبار سے تباہی وبربادی کے کنارے پہنچ چکے ہیں، فقرو فاقہ نے ان کے گھروں میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے، فقرا ومساکین کی بہتات ہے،
یتیموں اور بیواؤں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، غریب بچوں کی مذہبی تعلیم مشکل ہو رہی ہے، دینی اور علمی ادارے نزع کے عالم میں ہیں اور فقرو فاقہ کی تقریباً ہر جگہ شکایت ہے، مسجدوں میں بے فائدہ پھول پتیوں پر روپے صرف کرنا قرینِ عقل نہیں ہے۔
بلاشبہ پہلے مسلمانوں نے مسجدوں پر بہت خرچ کیا، مگر وہ ہمارے لیے کوئی شرعی دلیل نہیں بن سکتی ہے، پھر یہ کہ وہ مالی اعتبار سے ہم سے بہت بڑھے ہوئے تھے، زر وجواہر کے ان کے پاس ڈھیر تھے، مسلمانوں میں فقرو فاقہ اور افلاس کی یہ عام وبانہ تھی۔
پھر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ عملی طور پر بھی زینت کے رواج کے ساتھ مسجد ویران ہوتی گئی، مسجد کی گل کاری بڑھی، مگر دل کی گل کاری ختم ہوگئی، اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ بچے کھچے نمازیوں کے سینوں میں بھی خشوع وخضوع کا سرچشمہ خشک ہو رہا ہے۔
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض حِصَصِ مسجد کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کردیا جائے۔
مینار برائے اذان:
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں تجدیدِ مسجدِ نبوی کے وقت اذان کے لیے مینار کی ایجاد عمل میں آئی، اس سے پہلے مینار نہ تھا۔ علامہ ابن عابدین نے ’’البحر الرائق‘‘ کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ مینار عہدِ نبوی میں نہ تھا، ان کے الفاظ یہ ہیں:
ولم تکن في زمنہ ﷺ مئذنۃ۔ (رد المحتار: ۱/۳۶۰)