سے بہتر ہے۔
بعض روایتوں میں ’’مثلہ‘‘ کی جگہ ’’أفضل منہ‘‘، ’’أوسع منہ‘‘ بھی آیا ہے جو مماثلت کی نفی کرتا ہے۔ ہاں! اتنی بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں آدمی جیسی نیکی کرتا ہے ویسا ہی بدلہ ملتا ہے، پھر یہ بھی تو ہے کہ مسجد بنانے والوں کو جنت میں جو گھر ملے گا، اس گھر کو جنت کے دوسرے گھروں پر وہی بڑائی حاصل ہوگی جو مسجد کو دنیا کے دوسرے گھروں پر حاصل ہوتی ہے۔1
مختصر لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ بدلہ جنس بنا سے بھی ملے گا مع دوسرے الطاف واکرام کے، باقی کتنے کمرے ہوں گے؟ کیسے کمرے ہوں گے؟ اس کی صحیح حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، البتہ ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ اجر کے متعلق یہ سمجھ کر رائے قائم کرنی چاہیے کہ دینے والا رحمن، رحیم، قدیر ہے۔
تعمیر میں بقدرِ وسعت حصہ:
مسجد بنانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی ایک ہی شخص پوری مسجد بنوائے تب تو مستحقِ اجر ہے ورنہ نہیں، بلکہ معمولی مدد بھی قابلِ اجر ہے، جس سے جو ہو سکے مدد کرنی چاہیے، جس طرح روپے دینے والے کو اجر ملتا ہے اسی طرح اس کو بھی ثواب ملتا ہے جو جسم سے مدد کرے۔ بلکہ جسمانی مدد تو سنت ہے، نبیوں ؑ اور صحابۂ کرام ؓ دونوں نے بدستِ خود، تعمیرِ مسجد میں حصہ لیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کے واقعے کو قرآن نے بیان کیا ہے، اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کا واقعہ مسجدِ قبا اور مسجدِ نبوی کے ضمن میں آپ ابھی پڑھ چکے۔
مسجدِ نبوی کی ہی تعمیر کا واقعہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسر ؓ اینٹ اُٹھا اُٹھا کر لاتے تھے اور بڑی تندہی سے کام کر رہے تھے، آں حضرت ﷺ نے جب ان کو اسی محنت سے کام کرتے دیکھا تو شفقت ومحبت سے ان کے سر کی مٹی جھاڑنے لگے۔1
آپ پڑھ آئے ہیں کہ مسجدِ نبوی کی چھت عہدِ نبوی میں برگِ کھجور کی تھی۔ ایک رات بارش ہوئی مسجدِ نبوی میں اس قدر پانی ٹپکا کہ فرش کیچڑ بن گیا، صحابۂ کرام ؓ نے یہ حال دیکھا تو اٹھے اور اپنے کپڑوں میں کنکری لالا کر بچھانے لگے۔ آں حضرت ﷺ نے یہ منظر دیکھا تو بہت پسند فرمایا، اور ان کے اس کام کی تحسین فرمائی۔2
مسجد کے لیے جو زمین دے گا وہ بھی اس بشارت کا مستحق ہوگا، اور جو بنا بنایا مکان مسجد بنا دے وہ بھی اسی زمرہ میں ہے،