آں حضرت ﷺ خود بھی ان کا لحاظ فرماتے تھے، کسی بچہ کے رونے کی آواز جب پہنچتی تو نماز مختصر فرما دیتے۔1 مگر یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب عورتوں کو مسجد آنے کی اجازت تھی، یوں بھی آپ ایسی ہی نماز پڑھاتے جس سے مقتدی اکتا نہ جائیں اور اس طرح ان کے خشوع وخضوع میں فرق نہ پڑنے پائے۔ حضرت انس ؓ جن کو آپ کی خدمت کرنے کا شرف حاصل تھا، فرماتے ہیں:
ما صلیتُ وراء إمام قط أخف صلاۃ، ولا أتم صلوۃ من النبي ﷺ ۔ (المشکاۃ عن البخاري ومسلم باب ما علی الإمام)
میں نے نبی کریم ﷺ کے پیچھے جتنی ہلکی اور کامل نماز پڑھی، کسی اور کے پیچھے کبھی بھی نہیں پڑھی۔
امام کو ہدایت:
آں حضرت ﷺ کو کہیں سے یہ شکایت پہنچتی کہ کوئی امام قرأت زیادہ لمبی کرتا ہے، جس سے مقتدی اکتا جاتے ہیں اور جماعت سے نماز پڑھنے میں تأمل کرتے ہیں، تو آپ بہت خفا ہوتے۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے آپ کی خدمت میں یہ شکایت پہنچائی کہ میں فلاں امام کی طویل قرأت کی وجہ سے صبح کی جماعت میں شرکت کرنے سے معذور رہتا ہوں۔ صحابۂ کرام ؓ کا بیان ہے کہ آپ یہ سن کر اس قدر خفا ہوئے کہ اس سے پہلے نصیحت کے باب میں ہم لوگوں نے اس طرح کی خفگی کا اظہار دیکھا ہی نہیں تھا، اس موقع سے آپ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْکُمْ مُنَفِّرِیْنَ، فَأَیُّکُمْ مَا صَلَّی بِالنَّاسِ فَلْیَتَجَوَّزْ؛ فَإِنَّ فِیْہِمُ الضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ وَذَا الْحَاجَۃِ۔ متفق علیہ۔ (المشکاۃ: باب ما علی الإمام)
’’تم میں سے کچھ لوگ نفرت پیدا کرنے والے ہیں، تم میں جو بھی امامت کرے وہ مختصر اور ہلکی نماز پڑھائے، کیوں کہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند بھی ہیں‘‘۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت معاذ ؓ کے متعلق حدیث میں صراحۃً مذکور ہے کہ وہ نماز بہت لمبی پڑھاتے تھے جو جائز ہی نہیں، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے ذوق کے بھی مناسب تھی، مگر کسی ایک فرد پر یہ نماز گراں گزری، جو محنت اور مزدوری کے کام کرتے تھے، یہ خبر آں حضرت ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: أَفَتَّانٌ أَنْتَ یَا مُعَاذ؟ 1
حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ فرماتے ہیں کہ آخری عہد جو مجھ سے لیا گیا، وہ یہ تھا کہ جب امامت کروں تو حدودِ سنت کے اندر رہ کر ہلکی نماز پڑھاؤں۔2