یہ شکل بھی جائز ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ لکھتے ہیں:
چوں در مسجد داخل شود اگر ادائے فرض وسنت است فبہا، والا دو رکعت تحیۃ المسجد ادا نماید، اگر فرض وسنت ونفل دیگر ادا نمود تحیۃ المسجد ازو ساقط گشت۔
(فتح العزیز پارہ اول: ۲۴۲)
مسجد میں داخل ہوتے اگر فوراً ادائے فرض وسنت ہے، تب تو خیر، ورنہ پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرے، اور بجائے تحیۃ المسجد فرض، سنت اور دوسری نماز پڑھ لی تو اس کے ذمہ سے ساقط ہو جائے گی۔
اگر کوئی اوقاتِ مکروہہ میں یا صبح ومغرب میں تحیۃ المسجد کی تلافی کرنا چاہے، تو اس کو چاہیے کہ قبلہ رو بیٹھ کر ایک ساعت ذکر وتسبیح وتہلیل میں گزارے۔1 یوں تو ابنِ عابدین نے لکھا ہے کہ اگر کسی نے دن بھر میں ایک مرتبہ بھی تحیۃ المسجد پڑھ لی تو کافی ہے۔2 مگر اوپر جو حدیث نقل کی گئی اس کے لب ولہجہ کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر وقت موقع ہو تو تحیۃ المسجد کی نماز پڑھنی چاہیے۔
تحیۃ المسجد سلام پر مقدم ہے:
’’شرح سفر السعادت‘‘ میں حضرت شیخ ؒ نے لکھا ہے کہ پہلے تحیۃ المسجد کی نماز ادا کرے، پھر حاضرین کو سلام کرے۔ ’’تحیۃ المسجد‘‘ مسجد کو سلام کرنے کے حکم میں ہے جو حق اللہ ہے، اور اس موقع پر حق اللہ کو حق العباد پر تقدیم3 حاصل ہے۔ حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اسی کو لکھا ہے، فرماتے ہیں:
ومن ہدیہ ﷺ أن الداخل في المسجد یبتدئ برکعتین تحیۃ المسجد، ثم یجيء فیسلم علی القوم، فتکون تحیۃ المسجد قبل تحیۃ أھلہ۔
نبی ﷺ کی سیرت سے یہ ہے کہ مسجد میں جو داخل ہو وہ پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرے، پھر وہ قوم کو آکر سلام کرے۔ پس معلوم ہوا کہ تحیۃ المسجد سلام سے پہلے ہے۔ (زاد المعاد: ۲/۲۴)
انھوں نے ثابت کیا ہے کہ صحابۂ کرام کا دستور آپ کے ساتھ ایسا ہی تھا۔