شرعی کی روشنی میں جائز طریقے سے حاصل کی گئی ہو، اور اس میں کوئی نقص باقی نہ رکھا گیا ہو۔
زمین کا عطیہ جائز طریقے سے:
فقہائے کرام نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسجد ایسی جگہ بنادے جس میں دوسرے کا حق ہو اور اس کی رضا مندی حاصل نہیں کی گئی ہے، تو اس حق والے کو اختیار ہے کہ مسجد کو وہاں سے باطل قرار دے دے اور اپنا حق لے لے۔ مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک زمین ہے جس میں کسی کو حقِّ شفعہ حاصل ہے، یہ جوار کی وجہ سے ہے، یا رشتہ داری کی وجہ سے، تو اب اس پر مسجد بنائی نہیں جاسکتی۔1 اسی طرح فرض کرلیجیے ایک شخص بیمار ہے، اس کی خواہش ہوئی کہ اپنا گھر یا زمین مسجد میں تبدیل کردے، اس نے مرتے ہوئے اس کی وصیت بھی کردی، مگر اس کے جن وارثوں کو حقِ شرعی پہنچتا تھا، ان کو نہیں دیا، اس کی یہ وصیت ایسی صورت میں مسجد کے لیے بھی جاری نہ ہوگی، زیادہ سے زیادہ ایک تہائی میں جاری ہوگی، وارثان اپنا حق نکال لیں گے۔ خود مرنے والا اگر تمام حقوق نکال کر تہائی کی وصیت کرتا، تو کوئی اشکال پیدا نہ ہوتا، اور وہ حصہ مسجد ہو جاتا۔1
زمین کا حصول جائز ہو:
اسی طرح اگر زمین مسجد کے لیے خریدی جائے تو جائز طریقے سے، بیعِ فاسد سے خریدی ہوئی زمین پر مسجد بنانے کی اجازت نہ ہوگی۔ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا الطَّیِّبَ۔
ناجائز طریقے سے حاصل کی ہوئی زمین پر مسجد بنانا درست نہیں ہے، اس ناجائز حصول کی شکل جو بھی ہو، مثلاً کسی کا گھر زبردستی کچھ لوگ مل کر مسجد بنادیں یا جامع مسجد بنا دیں، تو ایسی مسجد میں نماز جائز نہ ہوگی، نہ جمعہ کی اور نہ وقتی۔2
وقف کرنے کے بعد مسجد کی حیثیت: