مَنْ سَمِعَ رَجُلًا یَنْشُدُ ضَالَّۃً فِي الْمَسْجِدِ، فَلْیَقُلْ: لَا رَدَّہَا اللّٰہُ عَلَیْکَ؛ فَإِنَّ الْمَسَاجِدَ لَمْ تُبْنَ لِہَذَا۔ (مسلم: باب النہي عن نشد الضالۃ إلخ: ۱/۲۱۰)
جو کسی شخص کوسنے کہ وہ مسجد میں گم شدہ کی تلاش کرتا ہے، تو چاہیے کہ کہے: اللہ تعالیٰ اس کو تجھ پر نہ لوٹائے، کیوں کہ مسجد اس کام کے لیے نہیں بنائی گئی ہے۔
اس حدیث میں صرف گم شدہ چیز کی تلاش سے روکا ہی نہیں گیا ہے، بلکہ اس میں اس پر زجرو توبیخ بھی موجود ہے اور ساتھ ہی اس کی علت بھی بیان کردی گئی ہے۔ اس زمانے میں خصوصیت سے اس حدیث پر عمل کرنا چاہیے، اور اس حدیث کا مفہوم عام مسلمانوں کے ذہن نشین ہونا چاہیے۔ ہاں! اس وقت کوئی حرج سمجھ میں نہیں آتا کہ جب چیز مسجد میں گم ہو جائے تو
آدابِ مسجد کے لحاظ کرتے ہوئے تلاش کی جائے، باقی جو چیز مسجد سے باہر کہیں اور کھوگئی ہے، اس کی جستجو ان مساجد کے ذریعے کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی کو مسجد میں گم شدہ چیز تلاش کرتے دیکھو تو کہو:
لَا وَجَدَّتَ، إِنَّمَا بُنِیَتِ الْمَسَاجِدُ لَمَا بُنِیَتْ لَہُ۔ (مسلم: ۱/۲۱۰)
وہ تجھ کو نہ ملے، مسجد جس کام کے لیے بنائی گئی ہے اسی کے لیے ہے۔
صنعت وحرفت:
اس حدیث کے ضمن میں امام نووی ؒ نے لکھا ہے کہ مسجد میں دست کاری صنعت وحرفت اور اسی طرح کا کوئی دوسرا کام درست نہیں ہے، کہ ان کاموں کا تعلق انسان کی ذات سے ہے، اس وقت البتہ اجازت ہے کہ یہ چیز عام مسلمانوں کے مفاد کی ہو، جیسے آلاتِ جہاد کی مرمت وغیرہ۔1
غزل خوانی: