حضرت فاروقِ اعظم ؓ صفوں کی درستی کے باب میں بہت سخت تھے، صف میں جو بھی ناہمواری پیدا کرتا، اس کو سزا فرماتے۔ اس باب میں کسی کی رو رعایت ملحوظِ خاطر نہ تھی۔ حضرت میمون ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کو جس دن نماز میں نیزہ مارا گیا، میں موجود تھا، مگر صفِ اول میں اس لیے نہیں کھڑا ہوا تھا کہ آپ سے ڈرتا تھا، کیوں کہ آپ کا دستور تھا کہ اگلی صف کو جب تک خود نہیں دیکھ لیتے، تکبیرِ تحریمہ نہیں کہتے تھے، اور جب کسی کو صف میں بے قاعدہ آگے پیچھے کھڑا دیکھتے، اس کے دُرّہ لگاتے۔1
ان واقعات سے یہ بات محقق طور پر معلوم ہوئی کہ امامِ مسجد پر صفوں کی درستی کی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کے فرائض میں ان کی دیکھ بھال بھی داخل ہے۔
مقتدیوں کا لحاظ:
بہرحال جب صفیں خوب درست ہو جائیں تو اب امام نماز شروع کرے گا، اور اپنی ذمہ داری کے ساتھ پڑھائے گا جس میں مقتدیوں کا خیال رکھنا از بس ضروری ہوگا، اس لیے کہ جماعت میں ہر طرح کے نمازی ہوتے ہیں، کتنے ضعیف اور بوڑھے ہوتے ہیں اور کتنے بیمار اور کمزور، ان میں سے ہر ایک کے حال کا لحاظ رکھنا امام کے فریضہ میں داخل ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ لحاظ اسی حد تک جائز ہے جو طریقۂ سنت کے حدود میں ہو۔ رحمتِ عالم ﷺ کا فرمان ہے:
إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ فِیْہِمُ السَّقِیْمَ وَالضَّعِیْفَ وَالْکَبِیْرَ۔ وَإِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ لِنَفْسِہِ فَلْیُطَوِّلْ مَا شَائَ۔ متفق علیہ۔ (المشکاۃ: باب ما علی الإمام)
’’تم میں سے کوئی جب لوگوں کی امامت کرے تو اسے چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیوں کہ ان میں بیمار، کمزور اور بوڑھے سبھی ہوتے ہیں، البتہ جب اکیلا پڑھے تو پھر جتنی لمبی نماز چاہے پڑھے‘‘۔
سرکارِ دو عالم کی تخفیف: