حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ وقف کے روپے بطورِ قرض مسلمانوں کو آفت اور مصیبت سے بچانے کے لیے خرچ کرے۔ (ایضاً)
مسجد کی مصلحت کے لیے جو وقف ہے اس کی آمدنی سے مسجد کے دروازے پر ظلہ (چھت سائے کے لیے) بنوانا متولی کے لیے جائز ہے، تاکہ بارش کے نقصان سے محفوظ رہے۔ ہاں! وقف جب مسجد کی تعمیر اور مرمت کے لیے مخصوص ہو، تو ظلہ نہیں بنوا سکتا، مگر ظہیر الدین ؒ کہتے ہیں کہ وقف عمارتِ مسجد پر، ہو یا مصالحِ مسجد پر دونوں برابر ہیں، اور یہ زیادہ صحیح ہے، لہٰذا بنوانا جائز ہوگا۔ (ایضاً)
موجودہ دور میں متولی:
اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے موجودہ دور میں وقف کا جو حشر ہو رہا ہے اور متولی جس طرح دیدہ ودانستہ کوتاہی کرتے ہیں، اس پر چند کلمات لکھنا ضروری ہیں۔
پہلے اس امر کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ واقف وقف کس نیت سے کرتا ہے؟ سب جانتے ہیں کہ وقف کر کے یہ چاہتا ہے کہ جس کام کے لیے وقف کیا گیا ہے، وہ حسن وخوبی سے ادا ہو، اخراجات کے نہ ہونے کی وجہ سے کام کے تعطل کا جو خطرہ ہے، وہ ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔ اور مسجد کا واقف تو ایک بڑی گہری فکر کے ساتھ اس کام کو انجام دیتا ہے، اس کی نیت کس قدر صالح ہوتی ہے کہ مسجد کا نظم عمدہ پیرائے سے برقرار رہے، دربارِ الٰہی کی صفائی ہو، اس میں روشنی ہو، اس کے حاضرین کو ہر طرح کا ذہنی اور خارجی آرام ہو اور اس وقف کی آمدنی سے دربارِ الٰہی کے کام کاج مزے سے چلتے رہیں۔ خدانخواستہ اس کی نیت مال کو ضائع کرنا نہیں ہوتی ہے اور نہ اس کا یہ ارادہ ہوتا ہے کہ متولی اپنے عیش وآرام میں صرف کرے، متولی اس لیے کوئی بھی نہیں بناتا کہ وقف برباد ہو، اسی لیے عموماً وقف ناموں میں متولی کا انتخاب بہت سی قیدوں کے ساتھ درج ہوتا ہے۔
تولیت کے لیے شرائط: