پھر یہ بھی واضح رہے کہ اگر کسی متولی نے مالِ وقف سے اندرونی حصے ہی میں سہی، گل کاری کی یا پھول پتیاں بنوائیں، تو اس کو تاوان ادا کرنا ہوگا۔2
یہ جو کچھ تفصیل پیش کی گئی ہے یہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’ردالمحتار‘‘ کا خلاصہ ہے۔ ’’عالمگیری‘‘ جو فتاویٰ میں بہت مشہور ومقبول ہے، اس میں تو دیواروں کے نقش ونگار کو مطلقاً مکروہ لکھا ہے، اور یہ تصریح ہے کہ نقش ونگار کم ہوں یا زیادہ، دونوں صورتوں میں کراہت سے خالی نہیں۔ ہاں! چھت کے معمولی نقش ونگار کو جائز کہا ہے، زیادہ پھول پتیوں کو اس میں بھی مکروہ ہی لکھا ہے۔ 3
تزئین سے اجتناب:
اس تمام تفصیل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ بے فائدہ پھول پتیوں سے اجتناب ضروری ہے جو فضول خرچی اور اصراف میں داخل ہے، اور جس کی قرآن نے قباحت بیان کی ہے۔
اولیٰ یہ ہے کہ مسجد کی دیوار مضبوط، بقدرِ ضرورت خوبصورت اور سادہ ہو، ان پر کچھ لکھا ہوا بھی نہ ہو۔ صاحبِ ’’البحر الرائق‘‘ لکھتے ہیں:
والأولی أن تکون حیطان المسجد أبیض غیر منقوشۃ، ولا مکتوب علیہا، ویکرہ أن تکون منقوشۃ بصور وکتابۃ۔ (۵/۲۵۱)
اچھا یہ ہے کہ مسجد کی دیواریں سفید اور نقش ونگار سے پاک ہوں، ان پر لکھا ہوا بھی کچھ نہ ہو، صور وکتابت سے منقش کرنا مکروہ ہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ کو عرب وعجم میں جو مقبولیت حاصل ہے، وہ پوشیدہ نہیں ہے، ان کی رائے بھی سننے کے لائق ہے:
تعمیرِ مسجد میں احتیاط سے کام لیں کہ وہ مطلی ومزین کی حد کو پہنچنے نہ پائے، اس کی دیواروں اور چھتوں پر سونے کا پانی نہ چڑھائیں، اور نہ پھول پتیوں سے آراستہ بنائیں، اور نہ نیلے رنگ وغیرہ سے رنگین ہی کریں، کیوں کہ اس طرح کی چیزیں مسجد کو تماشا گاہ کے درجے میں کردیتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین فاروقِ اعظم ؓ نے مسجدِ نبوی کی تجدیداتِ عمارت کے وقت تاکید کردی تھی کہ مسجد ایسی ہو جو لوگوں کی بارش وغیرہ سے حفاظت کرے۔ خبردار! سرخ وزرد رنگوں سے رنگین مت بنانا، کہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہو جائیں۔1