بھی کی۔ اور نقش ونگار اور جھاڑو فانوس کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا، صرف قبلہ والی دیوار پر سینتالیس ہزار اشرفیاں خرچ کی گئی تھیں۔1 تین چار سال میں جاکر یہ کام ختم ہوا۔
تکمیلِ عمارت کے بعد ولید دیکھنے آئے تو اتفاق سے ان کی ملاقات حضرت عثمان غنی ؓ کے کسی صاحبزادے سے ہوگئی، ولید نے ان سے کہا: دیکھئے آپ کے والد کی تعمیر کردہ مسجد اور اس میں کتنا فرق ہے۔ یہ سن کر صاحبزادے نے جواب دیا: ہاں! میرے باپ کی تعمیر کردہ مسجد تھی اور آپ کی یہ تعمیر کردہ عمارت یہود ونصاری کے کنیسوں جیسی ہے۔2
تزئین شریعت کی نظر میں:
ذخیرۂ احادیث کو سامنے رکھ کر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی مزخرف عمارت مسجد کے لیے شریعت کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہے۔ آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
مَا أُمِرْتُ بِتَشْیِیْدِ الْمَسَاجِدِ۔ قَالَ ابْنَ عَبَاسٍ ؓ : لَتُزَخْرِفُنَّہَا کَمَا زَخْرَفَتِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارَی۔ (أبو داود: باب بناء المسجد)
’’مسجدوں کو مشیدہ بنانے کا حکم نہیں ہے‘‘۔ ابنِ عباس ؓ نے معنی بیان کیے کہ تم ان مسجدوں کو یہود ونصاریٰ کی طرح زینت دو گے۔
زخرفہ زینت دینے کو کہتے ہیں۔ اصل میں ’’تزخرف‘‘ نام ہے سونے کے پانی چڑھانے اور سنوارنے کا، کیوں کہ لغت میں ’’زخرف‘‘ کے معنی سونا اور کسی چیز کو کمالِ حسن دینا ہے۔ 3
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مسجد کو ایسی زینت دے جو عتدال سے بڑھی ہوئی ہو جیسے یہود ونصاریٰ اپنی عبادت گاہوں کو آراستہ کرتے اور سنوارتے ہیں، حالاں کہ معبد کے ساتھ یہ برتاؤ پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ اس میں عقیدت سے زیادہ ڈینگ کو دخل ہے۔
بات بھی درست ہے کہ ہماری مسجدوں میں یہ تزخرف اور یہ حد سے بڑھی ہوئی گل کاری دوسری ہی قوموں کی عبادت گاہوں سے آئیں، اور یہاں آکر اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اب وہ قومیں جن سے یہ چیز لی گئی تھی، بہت پیچھے رہ گئیں۔ آج بھی روئے زمین پر جو مسجدیں مسلمانوں کی رہ گئی ہیں، وہ بے نظیر ہیں۔1 تفصیل دیکھنی ہو تو دیکھئے: ’’أخبار الأندلس‘‘ مترجمہ منشی خلیل الرحمن باب بست ونہم جلد سوم۔
تفاخر علامتِ قیامت: