جہاں مسجد سے بہت سے کام لینا جائز ہیں وہاں مسجد میں دینی تعلیم بھی جائز ہے، بلکہ یہ وہ سلسلہ ہے جو عہدِ رسالت سے مسجدوں میں قائم ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے بنفسِ نفیس مسجد میں علمی مجلس قائم کی ہے۔ ’’صفہ‘‘ جہاں عہدِ نبوی میں دین کی تعلیم ہوتی تھی، یہ مسجدِ نبوی میں تھا۔
مدارسِ اسلامیہ کا سلسلہ اول اول مسجدوں سے شروع ہوا، اور یہ چوتھی صدی ہجری تک باقی رہا۔ کتبِ احادیث وتراجم میں متعدد مدرسوں کے نشان ملتے ہیں جو مسجدوں میں قائم تھے، جہاں مدرسین بلا معاوضہ درس وتدریس کا سلسلہ جاری کیے ہوئے تھے۔ مولانا حکیم عبدالحی صاحب ’’تاریخِ گجرات‘‘ و’’یادِ ایام‘‘ میں لکھتے ہیں:
ہمارے پیرو مرشد روحی فداہ نے خاک پاک مدینہ میں جو پہلی عمارت بنائی تھی اور جس کو مسجدِ نبوی کہتے ہیں، وہ ہمارا پہلا مدرسہ تھا۔ اس کے بعد جتنی مسجدیں دنیا میں تیار ہوئیں انھی کو آپ مدارس سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ تعلیم کا پرانا طریقہ یہ تھا کہ استاد مسجد میں آکر بیٹھ جاتا اور اس کے گرد وپیش شاگردوں کا حلقہ بن جاتا۔ اساتذہ خالصاً لوجہ اللہ تعلیم دیتے، اور ان کے شاگرد چٹائیوں پر سوکر اور دور چراغ کھا کر تحصیلِ علم کرتے تھے۔ بڑے بڑے شاہزادوں کو بھی اگر علم کا ذوق ہوتا تھا تو وہ بھی مسجدوں میں جاکر اور اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے بیٹھتے تھے، یہی طریقہ چوتھی صدی ہجری تک علی العموم جاری رہا۔ اس کے بعد سب سے پہلے نیشاپور میں مدرسہ کے لے شاندار عمارت بنائی گئی اور اساتذہ کی تنخواہیں اور طلبہ کے وظائف مقرر ہوئے۔ 1
اس کے بعد مولانا مرحوم نے ہندوستان کی چند مسجدوں کا تذکرہ کیا ہے جن سے مدرسہ کا کام لیا جاتا تھا، ان میں جونپور میں اٹالہ کی مسجد، لاہور میں وزیر خان کی مسجد، نئی دلی میں ماہم بیگم کی مسجد، پرانی دہلی میں مسجد فتح پوری اور سورت میں مرجان شامی کی مسجد کا خصوصیت سے نام لیا ہے۔2
مئوضلع اعظم گڑھ میں کٹرہ کی مسجد سے بھی برابر مدرسہ کا کام لیا جاتا رہا ہے اور اب تک وہاں یہ سلسلہ قائم ہے جو مدرسہ اب مفتاح العلوم کے نام سے مشہور ہے، اور الحمد للہ کہ اس خاکسار کو بھی اسی سے شرفِ تلمذ کی نسبت حاصل ہے۔ سیدی علامہ ندوی نے ’’حیاتِ شبلی‘‘ میں اس مسجد اور مدرسہ کا تذکرہ کیا۔
دربارِ الٰہی کی صفائی
انسان طبعاً نفاست پسند واقع ہوا ہے، ہر شخص اپنی وسعت بھر چاہتا ہے کہ وہ خود بھی پاکیزہ رہے، اس کا گھر بھی صاف ستھرا رہے اور اس کی ہر چیز سے نفاست ٹپکے، پھر جو جس مرتبے کا ہے اس کی صفائی بھی اسی انداز کی ہوتی ہے۔
ان چیزوں کو سامنے رکھ کر یہ مسئلہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مسجد جو دربارِ الٰہی اور خانۂ خدا ہے، اس کی صفائی کس قدر