صحابۂ کرام ؓ نے آپ کے ان ارشادات اور ان کی حکمتوں کو خوب سمجھا تھا، اور اسی کا نتیجہ تھا کہ اُنھوں نے اس ہدایت پر پورا پورا عمل کیا۔ حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ آں حضرت ﷺ کے پیچھے نماز اس طرح پڑھتے تھے کہ آپ جب سمع اللّٰہ لمن حمدہ رکوع سے اٹھتے ہوئے فرماتے، تو ہم سیدھے کھڑے ہو جاتے اور اس وقت تک اپنی پیٹھ سجدہ کے لیے نہیں جھکاتے جب تک آپ اپنی پیشانی زمین پر رکھ نہ لیتے۔2
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے امام پر پہل کی، یہ دیکھ کر اس سے فرمایا: تو نے نہ تنہا نماز پڑھی، نہ امام کے ساتھ۔ پھر آپ نے اس کو سزا دی اور فرمایا: نماز لوٹا لو۔3
رحمتِ عالم ﷺ کی پیشین گوئی:
حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے ایک حدیث نقل کی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی کہ ’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ نماز پڑھیں گے، مگر ان کی نماز نہ ہوگی‘‘۔ اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں:
مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ زمانہ میرا زمانہ نہ ہو، میں نے سینکڑوں مسجدوں میں نماز پڑھی ہوگی، مگر کہیں بھی نہیں دیکھا کہ اہلِ مسجد نماز اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کرتے ہیں، یا نماز میں وہ طریقے اختیار کرتے ہیں جو آں حضرت ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام ؓ سے ثابت ہیں۔ پس اے نمازیو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اور اپنی نماز خوب سنبھل کر پڑھو، اور ساتھ ہی اپنے ساتھیوں کی نماز کا خیال رکھو کہ ان کی نماز مع حقوق ادا ہو سکے۔ سن لو! اگر کوئی خود خوب اچھی نماز پڑھتا ہے اور اس کے سارے حقوق کا لحاظ بھی رکھتا ہے، مگر وہ دیکھتا ہے کہ ایک دوسرا شخص اپنی نماز پورے حقوق کے ساتھ نہیں ادا کرتا، وہ اپنے امام پر حرکت وسکون میں پہل کرتا ہے، پھر بھی وہ خاموشی اختیار کرلیتا ہے، اسکو اس کی غلط روی پر نہ ٹوکتا ہے، نہ اس کی غلط روی کی قباحت بیان کرتا ہے اور نہ وہ اس کی اصلاح کی سعی کرتا ہے، تو وہ بھی بلاشبہ اس کے اس گناہ میں شریک سمجھا جائے گا، اور اپنی نماز حسن وخوبی کے ساتھ ادا کرنے کے باوجود دوسرے کی نماز میں قصور وار ہوگا۔ 1
امام صاحب ؒ کے اس بیان کے لب ولہجہ پر بار بار غور کیا جائے اور جس شد ومد سے اس کی اہمیت ذہن نشین کرنا چاہتے ہیں اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
اصلاحِ اُمت: