باقی کافر ومشرک کو مسجد بنانے کی اجازت دی جائے گی یا نہیں؟ فقہا یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اپنے مذہب کی رو سے اس کو کارِخیر اور ثواب کا کام سمجھتے تو اجازت دی جائے گی ورنہ نہیں۔ لیکن جس شکل میں ان کو مسجد بنانے کی اجازت دی گئی ہے اگر مسلمان کسی مصلحتِ اسلامی کے خلاف سمجھیں، تو پھر ان کو بھی اجازت نہ ہوگی۔2 ابوبکر حنفی لکھتے ہیں:
قرآن کا لفظ تو یہی بتاتا ہے کہ کافروں کو اس کی اجازت نہ دی جائے گی اور نہ ان کو مسجد کا ذمہ دار بنایا جائے گا۔3
تعمیرِ مسجد کا اجر:
اس تفصیل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تعمیرِ مسجد کی عزت اسلام کی نظر میں کتنی بلند ہے اور بنانے والا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کتنا ممتاز ہے۔ یہی نہیں، حدیثوں میں صراحت ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا گھر بناتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس کا بدلہ مرنے کے بعد جنت میں عطا کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
مَنْ بَنَی مَسْجِدًا لِلّٰہِ تَعَالَی بَنَی اللّٰہُ لَہٗ مِثْلَہُ بَیْتًا فِي الْجَنَّۃِ۔ (البخاري)
’’جو اللہ تعالیٰ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ اس کے لیے جنت میں اسی طرح کا گھر بنائے گا‘‘۔
اس سے بڑھ کر کیا خوش نصیبی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول اپنی زبانِ وحی ترجمان سے جنت کی بشارت سنائیں، اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں جنت میں گھر عطا کریں جو دلیل ہے اس کی رضا اور خوش نودی کی، مردِ مومن کو اس کی خوش نودی کے علاوہ چاہیے ہی کیا۔
’’مثلہ‘‘ (اسی طرح) کا یہ مطلب تو کسی درجے میں ممکن ہی نہیں ہے کہ جنت کا گھر دنیاوی گھر کی طرح کا ہوگا، جو اینٹ، چونا وغیرہ سے بنایا گیا ہوگا۔ اس طرح کا دل میں خطرہ گزرنا بھی بے ادبی اور گستاخی ہے، انسان کی بنائی ہوئی مسجد اور اللہ تعالیٰ کے جنتی گھر میں بحیثیت صنعت اور خوبصورتی وہی فرقِ عظیم ہوگا جو انسان اور اللہ تعالیٰ کی صنعت میں ہوتا ہے۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک مسجد بنانے کا بدلہ ایک ہی گھر سے ملے گا، بلکہ متعدد گھر بھی ایک کے معاوضے میں مل سکتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک نے ہر نیکی کا بدلہ {بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا} (دس گنا) سے بیان کیا ہے، جو محض اس کا لطف وکرم ہے۔ اور ایک ہی ہوگا تو ایسا کہ اس پر ہزاروں دنیاوی گھر نچھاور کیے جاسکتے ہیں۔ پھر یہ بھی نہیں ہے کہ گھر کے علاوہ اور کچھ نہ ملے گا، بلکہ اس کی رحمت سے بڑی امیدیں وابستہ رکھنی چاہئیں۔ واضح رہنا چاہیے کہ جنت کی بالشت بھر زمین ساری دنیا وما فیہا