شریعت میں اس طرح کی زینت کو ناپسند غالباً اس لیے کیا گیا ہے کہ اس مرکز پر پہنچ کر اخلاص وللہیت ختم ہوچکتی ہے اور فخرومباہات اس کی جگہ لے لیتی ہے، جس کو حدیث میں علاماتِ قیامت میں شمار کیا گیا ہے۔ آں حضرت ﷺ کا قول ہے:
لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّی یَتَبَاہَی النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ۔ (أبو داود: بناء المسجد)
’’قیامت اس وقت آئے گی جب لوگ مسجدوں میں تفاخر کرنے لگیں گے‘‘۔
تجربہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ مغز کو چھوڑ کر چھلکے پر وہ قوم جان دیتی ہے جس کے برے وقت آجاتے ہیں، اور محروم القسمتی کی گھنگھور گھٹائیں امنڈ امنڈ کر برسنے لگتی ہیں، سچ فرمایا نبی صادق ﷺ نے:
مَا سَائَ عَمَلُ قَوْمِ قَطُّ إِلَّا زَخْرَفُوْا مَسَاجِدَہُمْ۔ (ابن ماجہ: باب تشیید المساجد)
’’جب کسی قوم کے اعمال بگڑتے ہیں تو وہ اپنی مسجدوں کو مزین کرتی ہیں‘‘۔
یہ پیشین گوئی ہے کہ تزئینِ مساجد قوم کی بداعمالی کی علامت ہے، جس چیز کو مسلمانوں نے سمجھا تھا کہ بڑائی اسی میں ہے، وہ شریعت کی نظر میں بدترین نکلی۔ سرکارِ دو عالم نے یہ بھی فرمایا ہے:
أَرَاکُمْ سَتُشَرِّفُوْنَ مَسَاجِدَکُمْ، کَمَا شَرَّفَتِ الْیَہُوْدُ کَنَائِسَہَا، وَکَمَا شَرَّفَتِ النَّصَارَی بِیَعَہَا۔ (ابن ماجہ: تشیید المساجد)
’’میں دیکھتا ہوں کہ تم قریب ہی زمانے میں مسجدوں کو بلند وبالا بنانا شروع کردو گے جیسا کہ یہود ونصاریٰ اپنے کنیسے اور گرجے بنواتے ہیں۔
مسجد کی عمارت کی بلندی اور اس کی گل کاری کو دیکھئے اور اس کے بعد اس کی آبادی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہو کہ یہ جذبہ کس قدر کھو کھلا ہے، ظاہری زینت کا یہ حال اور منشائِ اصلی کا ایسا فقدان! اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں۔ اسی حالت کی طرف خادمِ رسول ﷺ حضرت انس ؓ نے اشارہ فرمایا تھا:
یتباہون بہا، ثم لا یعمرونہا إلا قلیلا۔ (البخاري: ۱/۶۴)
مسجدوں میں لوگ تفاخر کریں گے، مگر پھر اس کی آبادی کا خیال کم ہی لوگوں کو ہوگا۔
تزئین خشوع کے خلاف ہے: