حکم ہوا تھا، غالباً اسی زمانے میں آپ نے مسجدِ اقصی کی بنیاد رکھی ہوگی۔ حضرت سلیمان ؑ بانیٔ ثانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہوا کہ دونوں کے مؤسس حضرت آدم ؑ ہی ہیں، اور حضرت ابراہیم وسلیمان ؑ مجدّد ہیں۔3 اس صراحت کے بعد اشکال باقی نہیں رہتا۔
کعبہ کی قدامت پر قرآن کی شہادت:
مسجدِ حرام کی قدامت پر خود قرآنِ پاک بھی شاہد ہے، حضرت ابراہیم ؑ نے جب اپنے جگر گوشہ حضرت اسماعیل ؑ کو بے آب وگیاہ میدان میں چھوڑا تھا، اس وقت دعا کی تھی:
{رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ}4
اے ہمارے رب! بے شک میں اپنی بعض اولاد کو بن کھیتی کی سرزمین میں تیرے محترم گھر کے پاس آباد کرتا ہوں، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔
اس دعا میں {عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ} (تیرے محترم گھر کے پاس) کا مطلب یہی تو ہے کہ مسجدِ حرام اس وقت بھی موجود تھی، اور یہ وہ زمانہ ہے جب حضرت اسماعیل ؑ شیر خوارگی کے دور میں تھے۔5 اور مسجدِ حرام (بیت اللہ) کی دیواریں باپ بیٹے نے مل کر اس کے عرصہ بعد کھڑی کی ہیں، حضرت اسماعیل ؑ جب سنِ شعور کو پہنچے ہیں۔
حافظ ابن القیم ؒ نے اس اشکال کا دوسرا جواب دیا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے مؤسس حضرت یعقوب ؑ ہیں، جنھوں نے حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیرِ کعبہ کے چالیس برس بعد مسجدِ اقصیٰ بنائی، باقی سیلمان ؑ مؤسس نہ تھے، مجدد تھے۔1
لیکن میں سمجھتا ہوں پہلا جواب اس سے زیادہ مناسب ہے، کیوں کہ حضرت ابراہیم ؑ بھی موسس نہیں، بلکہ تجدید ہی کرنے والے تھے، جیسا کہ آپ نے قرآنِ پاک کی اوپر والی آیت میں ملاحظہ کیا۔
فتح العزیز کا خلاصہ:
تعمیرِ کعبہ کے متعلق شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ دہلوی نے مختلف کتابوں کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے، وہ بھی ملاحظہ فرمائیں،