ہے کہ ان کی نماز ہی قبول نہیں ہوتی، مگر اس وقت جب اس کو کوئی عذر درپیش نہ ہو۔2
نظمِ جماعت میدانِ کار زار میں:
یہی وجہ تھی کہ آں حضرت ﷺ اور آپ کے صحابۂ کرام ؓ بجان ودل جماعت کی نماز پر فدا تھے۔ جان سے بڑھ کر پیاری اور کیا چیز ہوسکتی؟ گھمسان کی جنگ ہورہی ہے، میدانِ کار زار گرم ہے اور گردنیں کٹ کٹ کر گر رہی ہیں، مگر اس وقت بھی اس دینی شیرازہ بندی کے توڑنے کی اجازت نہیں ملتی ہے، بلکہ وہاں بھی سب حتی الوسع ایک ہی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں اور ممکن حد تک نباہنے کی سعی کرتے ہیں۔
حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ عبداللہ بن عمر ؓ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ نے کہا کہ میں آں حضرت ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ اس میں دشمنوں کی ہم سے مڈبھیڑ ہوگئی، چناں چہ ہم میدان میں نکل پڑے، نماز کا وقت آیا تو ہم دو حصوں میں بٹ گئے: ایک گروہ آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا اور دوسرا دشمنوں کے مقابل ڈٹا رہا، پہلا گروہ جب آپ کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھ چکا تو دشمن کے مقابل چلا گیا، اور دوسرے گروہ نے آپ کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھی، آپ نے اپنی نماز پوری کر کے سلام پھیر لیا، اور اس کے بعد ہر ایک نے اپنی اپنی بقیہ ایک رکعت پوری کی۔1
مشرکینِ عرب کو یقین تھا کہ ان جاں نثارانِ اسلام کو نماز اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان سے زیادہ پیاری ہے، اس لیے وہ قصداً اوقاتِ نماز میں سخت سے سخت حملہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے ضجنان وعسفان کے درمیان نزولِ اجلال فرمایا، یہ دیکھ کر مشرکین کہنے لگے: ان لوگوں کو ایک ایسی نماز درپیش ہے جو ان کو ساری دنیا اور بال بچوں سے بھی زیادہ محبوب ہے، جس کا نام عصر ہے، لہٰذا تم متفق ہو کر یک بارگی پوری قوت سے ان پر ٹوٹ پڑو۔ ادھر مشرکین میں یہ مشورہ ہو رہا تھا، ادھر جبریل امین نے آکر آں حضرت ﷺ کو بتایا کہ اپنے ساتھیوں کو دو حصوں میں بانٹ دیجیے، اور ہر ایک کو ایک ایک رکعت نماز اس طرح پڑھائیے کہ دوسرا حصہ مسلح ہو کر دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹا رہے، اس طرح ان کی ایک ایک رکعت ہوگی اور آپ کی دو رکعتیں۔ 2