جائے۔
أمر عمر ؓ ببناء المسجد، وقال: أکن الناس من المطر۔ وإیاک أن تحمِّر أو تصفر، فتفتن الناس۔ (البخاري: ۱/۶۴)
عمر ؓ نے مسجد کے بنانے کا حکم دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں۔ خبردار! مسجد سرخ وزرد نہ بنائی جائے جس سے لوگ فتنے میں مبتلا ہو جائیں۔
دورِ عثمانی میں ترقی:
البتہ دورِ عثمانی میں تھوڑی سی زیبائش آئی اور وہ بھی مستحکم عمارت کے ضمن میں۔ بات یہ ہوئی کہ اس دور میں نفاست بڑھ گئی، لوگوں نے محل بنوانے شروع کر دیے، جس کی وجہ سے حضرت عثمان ؓ نے بھی اس کی ضرورت محسوس کی، کہ مسجد کی عمارت میں ترقی دی جائے۔
آپ کی تیار کردہ مسجد میں بیل بوٹے زیادہ نہ تھے، کوئی خاص زرق برق بھی پیدا نہ کیا گیا، ایک اعتدالی شکل اختیار کر کے نفاست بڑھا دی، مگر باایں ہمہ کتنے صحابۂ کرام ؓ کو یہ اضافہ پسند نہیں آیا، وہ اپنی محبتِ رسول کی وجہ سے چاہتے تھے کہ وہی ہیئت باقی رہے جو آپ کے زمانے میں تھی، گویہ بھی درست ہے کہ کسی نے اس پر شدید انکار بھی نہ کیا۔
تزئین کی ابتدا:
مسجد کی زینت جس نے اعتدال سے بڑھائی اور تزخرف کی حد کو پہنچایا، وہ حکومتِ بنی امیہ کا خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان تھا۔ یہ صحابۂ کرام کا بالکل اخیر زمانہ تھا، اس وقت مدینہ کے عامل (گورنر) عمر بن عبدالعزیز ؒ تھے، انہی کی نگرانی میں ۸۸ھ میں مسجدِ نبوی کی تعمیرِ جدید شروع ہوئی، اور صناع ومعمار قیصرِ روم کے یہاں سے منگوائے گئے، سازو سامان بھی بہت کچھ وہیں سے آیا۔ صناع (کاریگر) چوں کہ قبطی، یا رومی تھے، اس لیے انھوں نے موقع موقع سے مسجد کی بے حرمتی