اس میں بیش بہا فوائد، وقیع منافع، اور ان گنت حکمتوں کا خزینہ پوشیدہ ہے۔ یہاں ان میں سے چند کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا:
’’نماز کی جماعت‘‘ کے نام سے جو اجتماع ہوتا ہے، وہ ایسے گھر میں ترتیب پاتا ہے جہاں ہر مسلمان کو برابر کا حق پہنچتا ہے، اصولی طور پر اس میں شرکت کی عام اجازت ہوتی ہے، دیہاتی، شہری، بڑے، چھوٹے، عالم اور غیر عالم سب مساوی درجہ رکھتے ہیں، پھر یہ کہ اس اجتماع کی شرکت باعثِ فخرومباہات ہوتی ہے، اور اس کثرت سے یہ اجتماع ہوتا ہے کہ لوگوں میں ایک رسمِ عام کی حیثیت قبول کرلیتا ہے، کوئی اپنی سستی، کاہلی اور بے رغبتی سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہے تو یہ کوئی آسان بات نہیں، اس لیے کہ غیر حاضری کی شکل میں تلاش اور جستجو ہوگی، وجہ دریافت کی جائے گی، اور معقول عذر نہ ہونے کی صورت میں لوگوں کی نگاہ میں وہ معتوب سمجھا جائے گا۔
کاہلی کا انسداد:
اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاہل، سست اور بے رغبت مسلمان کے اندر چستی پیدا ہوگی، اور وہ بڑی حد تک اپنے کو مجبور پائے گا کہ مسجد آئے، جماعت میں شریک ہو، کیوں کہ یہ امتحان گاہ ہے کہ کون لوگ ہیں جو دعوائے اسلام کے ساتھ ساتھ اپنے دلوں میں اسلام کی محبت ووقعت بھی رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت برضا ورغبت بجا لاتے ہیں، اور کتنے وہ ہیں جن کو صرف ادعائے اسلام ہے، اور درحقیقت ان کا دل دین کی محبت سے خالی اور ویران ہے اور رب العالمین کے ساتھ ان کا تعلق بے دلی، بے رغبتی اور دوری کا ہے۔
عالمانِ دین کا امتحان:
اس اجتماعِ دینی میں چوں کہ دین کے جاننے والے اور اس کے ماہر بھی ہوتے ہیں اور دین سے ناواقف اور جاہل لوگ بھی، اس لیے عالمانِ دین اور احکامِ دین سے واقف افراد کا امتحان بھی ہے کہ یہ اپنا فریضہ ادا کرتے ہیں یا نہیں، اور امر