ایسی عام نہر جو کسی خاص جماعت کے تصرف میں ہے، اس جماعت کی رائے سے اس کو پاٹ کر مسجد بنا سکتے ہیں، بشرطیکہ کسی کو اعتراض نہ ہو۔ اسی طرح بوقتِ ضرورت کشادہ راستے سے ایک حصہ مسجد میں شامل کیا جاسکتا ہے جب کہ راہ گیروں کو اس سے نقصان نہ ہو، لیکن مسجد کا کوئی حصہ کسی حال میں راستہ میں لینا جائز نہیں۔4
مسجد جائز جگہ میں ہر مسلم آبادی، بازار، گزر گاہ اور جہاں واقعی ضرورت ہو، بنائی جاسکتی ہے۔5 ہاں! ایسی جگہ مسجد نہ بنائی جائی گی جہاں اس سے کوئی فائدہ نہ ہو، جیسے ویران میدان وغیرہ میں جہاں کوئی پہنچ بھی نہیں پاتا، کوئی بنا بھی دے تو وہ مسجد نہ ہوگی۔6
تیار مسجد کو وسعت دینا:
مسجد جب تنگ ہو جائے تو اسے وسعت دی جاسکتی ہے۔ بغل میں مسجد ہی کی زمین ہے تب تو کوئی بات نہیں ہے، اور کسی دوسرے کی ہے تو قیمت دے کرلیں گے، اگر وہ قیمتاً بھی نہ دے تو اس کو مجبور کریں گے، ورنہ بدرجۂ مجبوری اس کی بھی اجازت ہے کہ قیمت دے کر بغیر رضا مندی لے لی جائے۔1 مگر یہ آخری شکل ہے، حتی الوسع راضی کر کے لینا اچھا ہے۔
ایک مسجد ہے جو اہلِ محلہ پر تنگ ہوگئی، اسے وسعت دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسجد کا ایک پڑوسی کہتا ہے کہ یہ ہمیں دے دی جائے کہ گھر بنالیں اور اس کے عوض میں اپنا مکان دیتا ہوں جو اس سے کشادہ ہے اس کو مسجد بنالیا جائے۔ امام محمد کہتے ہیں: یہ صورت جائز نہیں ہے، اور اہلِ محلہ کو اس کا اختیار بھی نہیں ہے۔2
تنگ مسجد کی بغل میں دکان یا زمین ہے، وہ اسی مسجد پر وقف ہے، تو اس کو مسجد کی کشادگی میں لے سکتے ہیں۔ اہلِ مسجد صحنِ مسجد کو مسجد میں لے سکتے ہیں۔ اہلِ مسجد کے لیے یہ جائز ہے کہ ایک دروازہ چھوڑ کر دوسرا دروازہ بنالیں۔ قیمِ مسجد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ مسجد یا فنائے مسجد میں دکان بنائے، کیوں کہ فنائے مسجد بھی احترام میں مسجد ہی کے حکم میں ہے اور یہ مسجد کے تابع ہے، لہٰذا ایسی بات نہ ہونے دیں گے جس سے تعظیم وتکریم میں کچھ فرق آئے۔3
مسجد بن کر تیار ہوچکی تو پھر کوئی اس کے اوپر یا نیچے دکان بنوانا چاہے، تو جائز نہیں ہے، جس غرض سے بھی ہو، البتہ نماز کے لیے کچھ بنانا ہو تو یہ جائز ہے۔4