تخفیف کا مطلب:
جو کچھ عرض کیا گیا، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ قرأت اور تسبیحاتِ مسنونہ چھوڑ دی جائیں، سنن وآدابِ نماز کی رعایت ترک کردی جائے اور واجبات وفرائض میں کسی طرح کی کوتاہی برتی جائے، بلکہ ماحصل یہ تھا کہ ادائیگی نماز کا جو سنت طریقہ ہے اس کے اندر رہ کر سب کچھ کیا جائے، تاکہ نماز پڑھنے والا ’’یسر‘‘ کو ’’عسر‘‘ محسوس کرنے نہ پائے۔
اس مسئلے کو خوب سمجھ لیجیے کہ تخفیفِ صلاۃ (ہلکی نماز) کا مطلب شرعاً کیا ہے۔ آج کل دین سے جو بے رغبتی ہے اور عبادات میں جیسی سستی پیدا ہو تی جارہی ہے، اس کی وجہ سے عموماً لوگ دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور تخفیف کے جو معنی ہیں اسے صحیح طور پر نہیں سمجھتے۔
یہ مسئلہ ایسا ہرگز نہیں ہے جو شریعت میں مصرح نہیں، کہ جس کی مجبوری کی وجہ سے قیاس سے کام لینا پڑے، یا کسی شخص یا شہر یا جماعت کی عادت پر محمول کیا جائے، یا محض امام اور متقدی کی رائے پر چھوڑ دیا جائے۔ کتبِ حدیث میں آں حضرت ﷺ کی نماز پوری ہیئت کے ساتھ مذکور ہے اور ایک ایک بات کی تفصیل موجود ہے۔ ابھی حضرت انس ؓ کی حدیث گزر چکی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ آپ کے پیچھے جو نماز میں نے پڑھی، وہ ایک طرف اگر ہلکی تھی تو دوسری طرف کامل وتام بھی تھی۔ جس سے واضح ہے کہ تخفیف کے ساتھ اتمام وکمالِ نماز بھی مطلوب ہے، اور کھلی بات ہے کہ کمال میں تعدیلِ ارکان، سنن وآداب کی رعایت اور نماز کے دوسرے حقوق بھی داخل ہیں۔ پنج وقتہ نماز کی قرأت حدیثوں میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔
قرأت میں آں حضرت ﷺ کا معمول:
صبح کی نماز میں مقدارِ قرأت کیا تھی اور نبی کریم ﷺ کا معمول کیا تھا، اس سلسلے میں چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت جابر بن سمرہ ؓ کا بیان ہے:
أن رسول اللّٰہ ﷺ یقرأ في الفجر بـ{قٓ وَالْقُرْئَانِ الْمَجِیدِ} ونحوہا، وکانت صلاتہ بعد تخفیفا۔ (مسلم: باب القرائۃ في الصبح: