مکروہِ تنزیہی کے قائل ہیں، مگر ابنِ ماجہ باب الأکل في المسجد میں یہ حدیث موجود ہے:
کنا نأکل علی عہد رسول اللّٰہ ﷺ في السمجد الخبزَ واللحم۔ (۱/۲۴۵)
ہم لوگ عہدِ نبوی میں مسجد میں گوشت روٹی کھاتے تھے۔
جو جواز کے حق میں ہے ایک اور روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ کی خدمت میں گوشت روٹی حاضر کی گئی، آپ نے تناول فرمائی۔ راوی کہتے ہیں: کھانے میں آپ کے ساتھ میں بھی تھا، کھانے کے بعد آپ ﷺ نے اور دوسروں لوگوں نے کنکریوں سے ہاتھ صاف کیے اور پھر نماز پڑھی۔ 2
البتہ مسجد میں کھانے کے لیے یہ شرط ہے کہ مسجد آلودہ نہ ہونے پائے، ملا علی قاری ؒ نے لکھا ہے کہ یہ چیز اولیٰ ہے۔
لیٹنا اور سونا:
اسی طرح معتکف اور مسافر مسجد میں سو بھی سکتا ہے، بقیہ لوگوں کے لیے ائمہ کی مختلف رائیں ہیں، بعضوں نے مکروہ کہا ہے اور بعض لوگوں نے بوقتِ ضرورت بلا کراہت جائز کہا ہے، ہاں! پرہیز وسعت بھر اولیٰ ہے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ غیر معتکف اور مسافر کو جب ایسی مجبوری پیش آئے تو اعتکاف کی نیت کرے اور تھوڑی دیر نوافل وذکر اللہ میں بھی مشغول رہے۔3 حدیث سے مسجد میں سونے کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا جوانی
میں مسجد میں سونا ثابت ہے۔1 گویہ درست ہے کہ یہ مہاجرین میں تھے اور مہاجرین کچھ دنوں تنگ حال رہے، ممکن ہے عمر فاروق ؓ نے اپنے ایثار وخدمتِ اسلام کی وجہ سے کوئی کشادہ مکان نہ بنایا ہو، حدیث میں یہ صراحت ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ اس وقت غیر شادی شدہ تھے۔
بخاری ؒ نے ایک باب ’’باب نوم المرأۃ في المسجد‘‘ بھی قائم کیا ہے، جس سے ان کا مقصد عورت کا مسجد میں سونا ثابت کرنا ہے، اور اس باب کے تحت میں ایک قدرے لمبی حدیث نقل کی ہے جس میں ایک عورت کا قصہ ہے، اس کے متعلق حضرت عائشہ صدیقہؓ کا بیان ہے:
فکانت لہا خباء في المسجد أو حفش۔ (۱/۶۳)
اس عورت کے لیے مسجد میں ایک خیمہ یا خیمہ نما گھر تھا۔