گزار کر کیف وانبساط کے ساتھ جماعت میں لاکھڑا کرنا ہے، تو دوسری طرف یہ بھی مقصد ہے کہ جماعت کی نماز کا ثواب ستائیس گنے سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہے، جو مخلص بندے کو درگاہِ الٰہی سے ملتا ہے۔
سختی اور نرمی کا معیار:
ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے ایک شخص کو دیکھ لیا کہ اذان کے بعد وہ مسجد سے نکلا جارہا ہے، تو آپ نے کس سختی سے فرمایا: أما ہذا فقد عصی أبا القاسم ﷺ ۔ (بلاشبہ اس نے حضرت محمد ﷺ کی نافرمانی کی)۔1
پھر اسلام کی دلدہی پر قربان جائیے، اس نے اس شخص کو بھی جماعت کے ثواب سے محروم نہیں رکھا جو گھر سے جماعت کی نیت سے نکلا، مگر اس کو جماعت نہ ملی، بلکہ اس باب میں
آں حضرت ﷺ نے وضاحت فرمادی کہ ’’جو شخص باضابطہ باوضو مسجد آیا اور اس کو جماعت نہ مل سکی، تو بھی اس کو جماعت کا پورا پورا اجر ملے گا، کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘۔1
اس سے بڑھ کر یہ کہ معذورین کو رخصت بھی دی گئی ہے، کہ اگر کسی کو عذرِ شرعی پیش آجائے تو وہ جماعت سے غیر حاضر بھی ہوسکتا ہے۔2 گو عزیمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خود حتی الوسع مسجد کی حاضری اپنے اوپر لازم جانے۔
نظمِ جماعت کی حکمتیں:
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ شریعت نے جن باتوں کی جتنی تاکید کی ہے ان میں اسی اندازہ سے مصالح اور حکم بھی پنہاں ہوتے ہیں، جہاں تک ہر شخص کی نگاہ نہیں پہنچتی ہے۔ ہاں! کچھ علما راسخین فی العلم ہیں جو ایک حد تک حکمتوں کو پالیتے ہیں، اور پھر ان کے ذریعے اور بھی لوگ ان مصلحتوں اور حکمتوں کو جان لیتے ہیں۔
بلاشبہ جماعت کی نماز جس کی اس قدر اہمیت ہے بلاوجہ نہیں ہے، خیر وبرکت اور اجر وثواب کی زیادتی اپنی جگہ، علاوہ ازیں