نظامِ مساجد
۴۶ء کے شروع میں ’’احکامِ مساجد‘‘ کے نام سے میں نے اس کام کی ابتدا کی تھی۔ اس وقت میرے سامنے صرف فقہ اور فتاویٰ کی چند کتابیں تھیں، جن سے احکام یکجا کیے جو چند صفحوں سے زیادہ نہ ہوں گے۔ مشیتِ الٰہی سے اس زمانہ میں میعادی بخار میں مبتلا ہوا، مرض نے ایسی شدت اختیار کی کہ گھر والے مایوس ہوگئے، معالج بھی مطمئن نہ تھے، انہی ایام میں میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اللہ تعالیٰ شفا دے تو ’’احکامِمساجد‘‘ کی جگہ ’’نظامِ مساجد‘‘ کے نام سے اس کام کی تکمیل کروں۔ اللہ تعالیٰ نے شفادی اور میں نے کام شروع کردیا، بزرگوں اور اساتذۂ کرام کی خدمت میں خطوط روانہ کیے اور رہنمائی کی درخواست کی۔ اس سلسلے میں مخدوم ومحترم علامہ سید سلیمان صاحب ندوی، حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی اور حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی بانی ندوۃ المصنّفین مدظلہم نے گراں قدر مشورے لکھ بھیجے۔
ان مشوروں اور رہنمائی کی روشنی میں، میں نے کتاب کا ایک بڑا حصہ ترتیب دیا، اور اسے لے کر سب سے پہلے حضرت الاستاذ مولانا الشاہ حلیم عطا صاحب مدظلہٗ کی خدمت میں حاضر ہوا اور خود پڑھ کر سنایا۔ استاذِ محترم بہت خوش ہوئے، اس وجہ سے اور بھی کہ اس موضوع سے متعلق تقریباً تمام حدیثیں یکجا ہوگئیں، اور اسی مجلس میں چند دوسری حدیثوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی۔ اس کی تکمیل سے فارغ ہو کر پورا مسودہ حضرت مولانا ابوالحسن علی صاحب ندوی کی خدمت میں پیش کیا گیا، جس کا بڑا مقصد اصلاح واختصار تھا، مگر مولانا موصوف نے یہ کہہ کر مسودہ واپس کیا کہ اس میں کوئی ایسی زیادہ بات نہیں جو نکالی جاسکے۔ ہاں! از راہِ شفقت ومحبت انھوں نے جگہ جگہ اپنا مشورہ لکھ دیا، اور ملاقات ہونے پر تصنیف وتالیف سے متعلق بعض ضروری باتیں بتائیں۔ وہاں سے لاکر یہ مسودہ حضرت مولانا اعظمی مدظلہٗ کی خدمت میں شوق وذوق کے ہاتھوں سے پیش کیا، آپ نے بھی بہت ضروری مشوروں سے مستفیض فرمایا۔ اخیر میں یہ مسودہ حضرت مولانا مناظر احسن صاحب گیلانی اور حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحمن صاحب (مدظلہما) کی خدمت میں پیش ہوا، اور دونوں بزرگوں کے بیش قیمت مشوروں سے مستفیض ہوا۔
اس تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ کتاب زیرِ نظر ان اکابر کی رہنمائی کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالی کا فضل وکرم ہے، میرا کام صرف جمع وترتیب ہے اور بس۔ یہاں یہ بھی عرض کردینا مناسب ہوگا کہ یہ کتاب کسی مستقل کتب خانہ میں بیٹھ کر نہیں لکھی گئی ہے، خامیوں کا امکان ہے، جس کی ادب کے ساتھ معذرت چاہتا ہوں۔ دو سال ہوئے، میں نے یہ مسودہ صاف کر کے رکھ دیا تھا، حالات نے اب اجازت دی ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔