ہموار ہوں کہ اگر کوئی صف کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک خطِ مستقیم کھینچنا چاہے، تو اس میں ذرا بھی کجی نہ آنے پائے۔
اس ظاہری ہیئت کے ساتھ باطنی ہیئت بھی اچھی سے اچھی ہو، دل پر خشیت ومحبت کا پر تو نمایاں ہو، اور یہ محسوس کر رہا ہو کہ گو ہم اپنے آقا کو نہیں دیکھ رہے ہیں، لیکن وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔
عہدِ نبوی میں صفوں کی درستی کا اہتمام:
آں حضرت ﷺ نے اس کی تاکید برابر رکھی اور کبھی بھی صف کی ناہمواری برداشت نہیں فرمائی، بلکہ بذاتِ خود آپ نے صفوں کی درستی کا کام انجام دیا ہے۔ آپ کا دستور تھا کہ پہلے صفوں کی ہمواری ملاحظہ فرما لیتے، پھر نماز شروع فرماتے، جس کو صف میں ناہمواری کرتے دیکھ لیتے اس پر خفگی کا اظہار فرماتے۔ چناں چہ ایک دن ایسا ہوا کہ آپ نماز کے لیے مصلّے پر کھڑے بھی ہوگئے، تکبیرِ تحریمہ کہنا ہی چاہتے تھے کہ ایک شخص پر نظر پڑ گئی جس کا سینہ صف سے نکلا ہوا تھا، یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا:
عِبَادَ اللّٰہِ لَتُسَوَّنَ صُفُوْفَکُمْ، أَوْ لَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ وُجُوْہِکُمْ۔ (مسلم: ۱/۱۸۲)
’’اے بندگانِ خدا! یا تو تم اپنی صفوں کو برابر کرو، یا پھر اللہ تعالیٰ تمھارے اندر مخالفت ڈال دیں گے‘‘۔
جن ظاہری اختلاف سے روکا گیا ہے اگر اس کا لحاظ نہیں کیا جاتا، تو وہی اختلاف اور بعض کا بعض پر تأخر وتقدم، باطنی اور واقعی تنافر ِقلوب، حدوثِ کینہ اور وحشت وعداوت کا موجب بن جاتا ہے، جس کا اثر بڑھ کر شوکتِ اسلام اور نظامِ حیات پر پڑتا ہے، اس سے بڑھ کر یہ کہ جب ایک قانونِ شرعی کی نافرمانی ہوتی ہے تو وہ دلوں کی تاریکی وکدورت کا باعث بن جاتی ہے۔
صفوں کی درستی کے فائدے: