مقاتلہ اس وقت ہے جب وہ حکم نہ قبول کریں، دباؤ سے باہر ہوں، اور دباؤ میں جب ہوں تو مار پیٹ اور قید کرنا ہے، اور جب بات کو ماننے اور اذان کے دینے سے انکار کریں اور ماتحتی قبول نہ کریں، تو قتال جائز ہے، قتال کے بعد جب غلبہ حاصل ہوگا تو ان کو پیٹا جائے گا اور قید کیا جائے گا۔
معلوم ہوا اس شعارِ دین کو جو اگر چہ سنتِ مؤکدہ ہے، قائم ودائم رکھنا نہایت ضروری ہے، اور اس کا ترک اجتماعی طور پر کسی وقت بھی جائز نہیں ہے۔
مؤذن کی حیثیت:
جس شعارِ اسلام کی اہمیت کا یہ عالم ہے بلاشبہ جو ان کلمات کو رات دن ادا کرے گا، اس کا رتبہ بھی بلند ہوگا۔ بلال حبشی ؓ کو تاریخِ اسلام میں جو مرتبہ حاصل ہے، اس سے کون واقف نہیں، مگر یہ معلوم ہے وہ کون تھے؟ مسجدِ نبوی کے خاص مؤذن تھے۔ یہ جب کلماتِ اذان پکارتے تو آواز میں غضب کی تاثیر ہوتی، جو دلوں پر بجلی کا کام کرتی تھی، صحابۂ کرام ؓ کی جماعت میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ مؤذن کی حیثیت ان حدیثوں میں ملاحظہ کیجیے:
اَلْمُؤَذِّنُ أَطْوَلُ النَّاسِ أَعْنَاقًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (رواہ مسلم، المشکاۃ)
’’مؤذن قیامت کے دن لوگوں میں بلند گردن ہوگا‘‘۔
لَا یَسْمَعُ مَدَی صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْئٌ إِلَّا شَہِدَ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (البخاري)
جو بھی جہاں اذان کی آواز سنتا ہے جن ہو یا انسان یا کچھ اور، مگر وہ قیامت کے دن مؤذن کے لیے گواہی دے گا۔
اَلْمُؤَذِّنُ یُغْفَرُ لَہٗ مَدَی صَوْتِہِ، وَیَشْہَدُ لَہٗ کُلُّ رَطْبٍ وَیَابِسٍ، وَلَہٗ أَجْرُ مِثْلِ مَنْ صَلّٰی۔ (المشکاۃ)
’’جہاں تک آواز جاتی ہے مؤذن کے لیے وہ مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اور ہر تر، خشک اس کی گواہی دیں گے، اور اس کو نمازی کے برابر اجر ملے گا (جو اس کی آواز پر آتے ہیں)۔
مؤذن جس طرح اذ۱ن کی ذریعے اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان کرتا ہے اور اس کی وحدانیت کا ترانہ گاتا ہے، اسی طرح کا اس کو اجر بھی رب العزت مرحمت فرمائیں گے، کہ قیامت کے دن یہ تمام پر بلند ہوگا، اس کو امتیازی شان حاصل ہوگی، اور وہ ساری کائنات جس نے اس کی آواز سن لی ہے، اس کے حق میں گواہی دے گی۔ یہ وہ اجر ہے جو حدیثوں میں مذکور ہے، اور شاید اللہ تعالیٰ ان کے علاوہ بھی عظیم الشان بدلہ عطا کرے گا۔