ان اجتماعِ عیدین سے بھی خیر القرون میں کام لیا گیا ہے اور آج بھی ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم دین کی ان حکمتوں سے واقف نہیں اور یہ کہ اس اجتماع سے کام لینا چھوڑ دیا، آج بھی اگر اربابِ فضل وکمال اس طرف توجہ کریں، تو ان اجتماع سے ایک بڑی کانفرنس کا کام لیا جاسکتا ہے، دین کی باتوں کی اشاعت بسہولت ہوسکتی ہے، بہت سے ان مسلمانوں کو جو دین سے ناآشنا ہیں، انھیں دین کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔
بہرحال آج ہم اپنی غفلتوں کی وجہ سے جو بھی کریں، مگر حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے ان اجتماعِ دینی سے بڑا کام لیا، تبلیغ واشاعت میں ان سے آپ کو بڑی مدد ملی ہے، جہاد جیسا اہم کام بھی اس موقع سے آپ نے انجام دیا ہے، بلکہ حدیث میں اس کا کچھ خصوصیت سے ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں:
کان النبي ﷺ یخرج یوم الفطر والأضحی إلی المصلی، فأول شيء یبدأ بہ الصلاۃ، ثم ینصرف، فیقوم مقابل الناس، والناس جلوس علی صفوفہم، فیعظہم، ویوصیہم، ویأمرہم، وإن کان یرید أن یقطع بعثا قَطَعہ، أو یأمر بشيء أمر بہ، ثم ینصرف۔ (البخاري: باب الخروج إلی المصلی)
نبی کریم ﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں عیدگاہ تشریف لاتے، سب سے پہلے نماز ادا فرماتے، پھر فارغ ہو کر لوگوں کی طرف توجہ فرماتے اور لوگ اپنی جگہ بیٹھے ہوتے، ان کو نصیحت فرماتے، اور تاکیدی حکم دیتے۔ اگر لشکرِ اسلام کی روانگی کا ارادہ ہوتا تو اس کو روانہ فرماتے، یا کسی ضروری کام کا انجام دینا ضروری ہوتا تو اس کے متعلق حکم نافذ فرماتے، پھر واپس ہوتے۔
ملکی اور دینی کام:
یہ حدیث کتنی واضح ہے، الفاظِ حدیث میں اس اجتماع کے مہتم بالشان ہونے پر کس قدر زور معلوم ہوتا ہے۔ آں حضرت ﷺ نے کتنا عظیم الشان مصرف لیا، مجاہدین کی روانگی کا کام کوئی معمولی کام نہیں ہے، کاش! اس سے ہم سبق حاصل کریں اور ملکی یا دینی جس طرح کا کام در پیش آئے، اس سے مدد لیں۔ اس وجہ سے اور بھی کہ اس طرح کا اجتماع آج کل آسان کام نہیں، اور غالباً اسی حکمت کے پیشِ نظر عید کا خطبہ نماز کے بعد رکھا گیا ہے، کہ باطمینان تبلیغ واشاعتِ دین کا کام انجام پاسکے، بخلاف جمعہ کے، کہ وہ نسبتاً جلد جلد ہوتا ہے، خطبہ نماز سے پہلے رکھا گیا ہے، بلاشبہ یہ بھی بات ہے کہ جمعہ بعد نوافل وسنن ہیں جو عید بعد نہیں ہیں۔