فرماتے ہیں: جس نمازی کو دیکھو کہ وہ اپنے جسم اور کپڑوں سے کھیل رہا ہے، سمجھ لو اُس کا دل خشوع کے اثر سے بے گانہ ہے۔1
خشوع کا حصول:
نماز میں خشوع کیوں کر حاصل ہوتا ہے؟ یہ سوال گو اس زمانے میں اہم ہے، مگر جن لوگوں کو ایمان کی حلاوت نصیب تھی ان کے لیے یہ سوال کوئی خاص سوال نہ تھا، ایمان کے ضعف واضمحلال اور اخلاص وللہیت کے فقدان نے ہمارے لیے دشواری پیدا کر دی ہے، ورنہ ہم جس ظاہری اہتمام کے ساتھ مسجد تک پہنچتے ہیں، اتنا بھی اہتمام باطن کا ہوتا تو بھی بسا غنیمت تھا۔ ایمان کی تازگی اور اس احساس کے ساتھ حاضری ہو کہ دربارِ الٰہی میں جہاں رب العالمین جلوہ افروز ہے، کھڑے ہیں، یہ دست بستگی اسی کے سامنے ہے، ہم اس کے جاہ وجلال کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اور وہ ہمارے قیام وقرأت کو ملاحظہ کر رہا ہے، ظاہر کو بھی دیکھتا ہے اور باطن کو بھی۔ اور اللہ اکبر کہہ کر ہم نے تھوڑی دیر کے لیے دنیا کے رشتوں کی رگ کاٹ ڈالی ہے، اور اپنا رشتہ مالکِ حقیقی کے ہاتھ میں دے دیا ہے، اس کی عظمت اور کبر یائی سامنے ہے اور ہم اس میں گم ہیں۔
یہ یقین دل کی بھٹی کو تیز کر دے گا، آلائشوں، زنگوں اور میلوں کوخاکستر بناکر کندن بنادے گا۔ اور {رَبِّ الْعٰلَمِیْنَO الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِO مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِO}۔2 کے جملوں کے ساتھ دل اتھاہ سمندر میں ڈوب جائے گا، اور {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَO}3 پر پہنچ کر دل اور اس کا پورا حلقہ امید وبیم اور خشیت ومحبت سے مجبور ہو جائے گا، اور ان کلمات کے ساتھ دل کے ساز کا تار تار جنبش میں آجائے گا، اور نماز سے جب فارغ ہو چکے گا تو اس کی زبان پر وہی کلمات ہوں گے جو رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا تھا: ’’جعلت قرۃ عیني في الصلاۃ‘‘۔
اس کے لیے جو مانع نظر آئے اسے دفع کرنے کی کوشش کرے، آں حضرت ﷺ کا یہی طریقہ تھا، اس باب میں کسی چیز کو برداشت نہیں فرمایا۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ کے سوال پر فرمایا تھا کہ نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا:
ہُوَ اِخْتِلَاسٌ یَخْتَلِسُہُ الشَّیْطَانُ مِنْ صَلَاۃِ الْعَبْدِ۔ (البخاري)
’’وہ اچک ہے جو شیطان بندہ کی نماز سے اچک لیتا ہے‘‘۔