حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا رَأَیْتُمُ الرَّجُلَ یَتَعَاہَدُ الْمَسْجِدَ فَاشْہَدُوْا لَہُ بِالإِیْمَانِ۔ (المشکاۃ: ۱/۶۹)
تم جب کسی کو مسجد کی خدمت کرتے دیکھو تو اس کے ایمان دار ہونے کی گواہی دو۔
’’تعاہد‘‘ کے بہت سے معنوں میں ایک معنی جھاڑو دینا بھی ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ عموماً دو شنبہ اور پنج شنبہ کو مسجدِ قبا جاتے تھے۔ ایک دن مسجد میں دیکھا جھاڑو نہیں دی گئی ہے، خود آپ نے کھجور کی شاخ لے کر مسجد کو صاف فرمایا، پھر لوگوں کو تاکید فرمائی کہ مسجد کو مکڑیوں کے جالے وغیرہ سے پاک وصاف رکھو۔1
ایک دفعہ آپ نے فرمایا: اس (مسجد) کو ہر طرح کی گندگی سے پاک وصاف رکھو، یہ اس لیے کہ اس میں ذکر اللہ اور تلاوتِ قرآن پاک ہو۔2
مسجد کی صفائی کا معاوضہ:
اخیر میں اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیں اور اندازہ لگائیں کہ خادمِ مسجد کا اجر کتنا ہے۔
مَنْ أَخْرَجَ أَذًی مِنَ الْمَسْجِدِ بَنَی اللّٰہُ لَہٗ بَیْتًا فِي الْجَنَّۃِ۔ (ابن ماجہ: باب تطہیر المساجد)
جو شخص مسجد سے گندگی نکالے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔
اس حدیث کو پڑھ کر ہر مسلمان کے دل میں مسجد کی خدمت اور اس کی صفائی کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے کہ اس معمولی خدمت کا اجر اتنا بڑا ہوگا۔
اس تفصیل کا ماحصل یہ ہے کہ مسجد کو جو دربارِ الٰہی ہے، ہر طرح کی گندگی، خس وخاشاک، تھوک، بلغم، گھناؤنی چیز اور شریعت میں جو بھی نجس اور تکلیف دہ ہے، اس سے پاک وصاف رکھنا ضروری ہے، اور جو اس خدمت کو انجام دے گا اللہ تعالیٰ کے یہاں سے اس کو بڑا اجر ملے گا۔ پھر یہ بھی واضح ہو جائے کہ یہ خدمت باعثِ ذلت نہیں، باعثِ عزت ورضائے الٰہی ہے، اور یہ وہ عظیم الشان خدمت ہے جسے خود سرکارِ دوعالم ﷺ نے اپنے ہاتھوں انجام دیا ہے اور آپ ﷺ کے جلیل القدر صحابۂ کرام ؓ نے۔