بلاشبہ وہ جب ایک ایسی مرکزی دینی عبادت کا پیشوا ہے جو افضل العبادات ہے، اور ایک ایسے رکن کا ضامن بن رہا ہے جو ارکانِ خمسہ میں دوسرا درجہ رکھتا ہے، تو بلاشبہ ایسے شخص کو رذائلِ اخلاق، سوقیانہ اطوار، مذموم عادات اور ہر ایسی خصلتِ بد سے منزہ اور پاک ہونا چاہیے، جو شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ ساتھ ہی مکارمِ اخلاق، صفاتِ محمودہ، خصائلِ
پسندیدہ اور خدا شناسی وخدا ترسی کے اوصاف سے متصف بھی ہونا چاہیے۔
جس کو ہم خدا کے سامنے اپنا نمائندہ بنا رہے ہیں، حتی الوسع اس کے انتخاب میں ہمیں عقل وخرد سے کام لینا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو اس میں بھی ہمارے سامنے وراثت وخاندان میں حسب ونسب کا غلط مسئلہ آجائے، امیر وفقیر کی بات دھوکہ دے جائے جس کی پروردگارِ عالم نے مذمت فرمائی ہے۔1 بلکہ ان سب سے بالاتر ہو کر ہماری نگاہ اللہ تعالیٰ کے فرمان اور رسولِ اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی راہ پر ہو، یہ وہ عہدۂ جلیلہ ہے جسے خود سرکارِ دو عالم ﷺ نے اپنی ذات سے زینت بخشی ہے، اور اس وقت تک جب تک ہوش وحواس نے ساتھ دیا خود ہی زینت بخشتے رہے۔ مرض الوفات والی حدیث کے ضمن میں طبری کا یہ قول نقل کیا گیا ہے:
إنما فعل ذلک؛ لئلا یعذر أحد من الأئمۃ بعدہ نفسہ بأدنی عذر، فیتخلف عن الإمامۃ۔ (فتح الباري: ۲/۱۰۸)
یہ تو آپ نے اس لیے کیا تاکہ آیندہ کوئی امام ادنیٰ عذر کو حیلہ بناکر امامت سے کترا نہ جائے۔
آں حضرت ﷺ کی امامت کے لیے ایک جامع شخصیت کی نامزدگی:
آپ جب مرض سے نڈھال ہوگئے اور بار بار سعی کے باوجود غشی پر غشی آتی رہی، تو آپ نے اس جگہ کے لیے اپنا قائم مقام اور خلیفہ اس فرد کو بنایا جو عالمِ انسانی میں انبیا ورسل کے بعد افضل ترین تھا، جن کو صحابۂ کرام ؓ کی جماعت میں ’’اعلم‘‘ ہونے کا درجہ حاصل تھا، یعنی صدیق اکبر ؓ کو آپ نے اپنی یہ جگہ عطا فرمائی۔ آپ کی بعض ازواجِ مطہرات ؓ نے فاروقِ اعظم ؓ کے نام کی سفارش کی اور باصرار وتکرار کی، مگر آپ نے اس مشورہ کو رد فرما دیا، اور اس سلسلے میں ایک جملہ فرماکر اس جرأت پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اور بالآخر رسول اللہ ﷺ کی جگہ صدیقِ اکبر ؓ نے امامت فرمائی۔
اس مرض الوفات کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ تین دفعہ آپ نے پانی رکھنے کا حکم فرمایا،