پھر اس ہفتہ وار اجتماع میں پنج وقتہ جماعت کے فائدوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ چند مسجدوں کی جماعتیں ایک مسجد میں سمٹ آتی ہیں اور سب کے سب صرف ایک امام کی پیروی کرتے ہیں، گویا یہ امام پورے شہر کا امام ہوتا ہے اور آج اس کی ہر حرکت وسکون کی پوری پوری مطابقت کی جاتی ہے۔ یہ امام اس دن ایک بلیغ خطبہ دیتا ہے جس میں حمد وثنا کے بعد قرآن واحادیثِ پاک کی روشنی میں فرائض اور ذمہ داریوں کی یاد دہانی کی جاتی ہے۔ امام شہر کی سیاسی ودینی رہنمائی کرتا ہے اور ہفتہ بھر کے نشیب وفراز سے آگاہ کرتا ہے، نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کا تذکرہ کرتا ہے، اور خیر القرون کی یادتازہ کراتا ہے، اور اس طرح اس دور کے احیا کے لیے اُبھارتا ہے۔
تبلیغ واشاعت کی اہمیت:
یہی وجہ ہے کہ خطبہ کا سننا واجب قرار دیا گیا ہے۔ امام جہاں خطبہ دینے کی نیت سے نکلا دنیا کی ساری باتیں باعثِ گناہ ہوگئیں، جن اُمور کی اجازت تھی وہ بھی شرعی طور پر اب باقی نہیں رہے۔ کوئی بھی کچھ بول نہیں سکتا، حتی کہ نفل وسنت پڑھنے کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِکَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ: أَنْصِتْ وَالإِمَامُ یَخْطُبُ، فَقَدْ لَغَوْتَ۔ (البخاري: باب الإنصات یوم الجمعۃ)
’’اگر امام کے خطبہ دیتے وقت تو نے اپنے کسی بھائی سے یہ کہا کہ چپ رہو، تو یہ بھی تو نے ایک لغو کام کیا‘‘۔
گویا امام کے سوا کسی اور کو یہ حق نہیں کہ کچھ بولے، یا امر بالمعروف کرے، یہ سارے چیزیں صرف امام ہی کے لیے اس وقت مخصوص ہوتی ہیں۔
اندازِ خطابت: