کو ثواب سے محرومی ہو، اور ہمہ دم اس کو حبطِ عمل سے ڈرتے رہنا چاہیے: {اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌO}۔3
بانی کے نام کا کتبہ:
بعض لوگ جو بدعات کا شکار ہو کر مسجد پر اپنا نام کندہ کراتے ہیں، یا بانی اپنے نام کا کتبہ لگاتے ہیں، یہ بھی ریا ہے، اور بقول ابنِ جوزی اخلاص سے محروم ہیں۔ 4
ہمارے دور میں تعلّی، ترفّع اور آن وشان کی جو رسمِ بدجاری ہوگئی ہے اور اخلاص کی جس طرح مٹی پلید ہو رہی ہے، وہ قابلِ صد افسوس ہے۔ ملا جیون نے سچ فرمایا ہے کہ:
ہمارے زمانے کے وہ متعصب مشایخ اور بھی قابلِ تعجب ہیں جو ہر گلی کوچہ میں مسجد اس لیے بناتے پھرتے ہیں کہ نام ونمود حاصل ہو اور شان وشوکت نمایاں رہے، یہ محض باپ دادا کی غلط پیروی کا نتیجہ ہے۔ ان کو مسجدِ ضرار کے واقعے میں غور وفکر کرنا چاہیے اور انجام سے ڈرنا چاہیے۔5
حلال مالیت:
نیت کی اصلاح کے ساتھ یہ بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ مسجد میں جو مال لگایا جائے وہ پاک اور حلال کمائی کا ہو، اس اجتماعی نظام میں ان تمام مفاسد پر پہرہ بٹھایا گیا جس سے کوئی برا اثر پیدا ہو، اور اس نظام کی ہر طرح سے حفاظت کی گئی ہے، تاکہ اس کے استحکام میں کہیں سے کوئی رختہ پیدا نہ ہونے پائے۔
مالِ حرام ایک خاص اثر رکھتا ہے جو کبھی نہ کبھی فتنہ وفساد کا مرکز بن جاتا ہے، جیسے زہر، کہ اگر فوری طور پر کچھ نہ بھی ہو، تو بھی مطمئن نہ رہنا چاہیے، پھر یہ مال جب کہ مسجد جیسی پاک جگہ میں صرف ہو رہا ہو، یہ دربارِ الٰہی ہے اور اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، اس میں ناپاک مال کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہے۔
إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا الطَّیِّبَ۔ (مسلم)