اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو کہ وہ تیرے پاس آئیں گے پیادہ بھی اور ہر دبلی اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی۔
مساجد کی اجتماعی حیثیت:
اس اجتماعی نظام سے بڑھ کر کوئی اور نظام ممکن بھی ہے؟ دنیا کا کوئی پولیٹکل نظام اس قدرتی نظامِ مساجد کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا، جو بکھرے ہوئے انسانوں کو بتدریج جمع کردیتا ہے اور منتشر افراد کی بات بات میں شیرازہ بندی کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ اس نظام میں کاہلی پر ہردن ضرب کاری لگتی رہتی ہے۔ اور ہر پہلو سے یہ عالمی نظام ایک کو دوسرے سے جوڑ دیتا ہے۔
واقعی بات یہ ہے کہ ہم نے اب تک سچائی سے اس قدرتی نظام پر غور ہی نہیں کیا، اور کبھی غور بھی کیا تو محض سرسری طور پر، ورنہ اس نظام میں دینی ودنیوی دونوں روگ کا کامل علاج ہے اور کہیں سے کوئی خامی نہیں چھوڑی گئی ہے۔ اس نظام کے بروئے کار لانے سے دین بھی پیدا ہوگا اور دنیا بھی سنورے گی، اتحاد واتفاق کی ناقابلِ تسخیر قوت بھی پیدا ہوگی اور ارتقا وعروج کا جذبہ بھی ابھرے گا، مرکزیت اور اجتماعیت بھی مستحکم ہوگی اور سیاسی قوت بھی راسخ ہوگی، اور جس کی وجہ سے ہمارے سارے کام بگڑتے ہیں وہ بات بھی ختم ہو جائے گی، یعنی ایک بالادست طاقت کے اشارے پر زندگی گزارنے کا ڈھنگ پیدا ہو جائے گا۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آئینِ اسلام کی کامل اتباع کے ساتھ اس نظام میں نظمِ جماعت، ہمدردی، پاکیزگی، جسم کی صفائی، حسنِ ہیئت، وقت کی پابندی، آپس کی بہی خواہی، اخلاص وتضرع اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے سارے لوازمات آجاتے ہیں۔
نظامِ مساجد کی برتری: